اتوار، 27 فروری، 2022

حکومت کی طرف سے ممنوع اشیاء کی خرید و فروخت کا شرعی حکم سوال نمبر ١٨٤

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ  

مفتی صاحب مجھے یہ مسئلہ معلوم کرنا ہیں کہ حکومت  کی طرف سے جن چیزوں  پر پابندی لگائی گئی  ہے ان کا  کاروبار  کرنا درست ہے یا نہیں جیسے سے انڈیا میں ہرن اور  مور کا کاروبار ممنوع ہے  حکومت کی طرف سے اسی طریقے سے چندن کی لکڑی  اور پڑاک کی لکڑی  کا کاروبار  ممنوع ہے تو اب ان چیزوں  کا کاروبار کرنا شرعی اعتبار سے  جائز ہوگا یا نہیں اور ان سے جو کمائی  ہوگی وہ حلال ہوگی یا حرام ؟؟؟

یا یہ  کہ حکومت کی طرف سے ممنوع ہونے کی وجہ سے شریعت  کی طرف سے بھی ممنوع ہوگا کیا ؟؟؟

اور اس طریقے کا کاروبار  ہندوستانی حکومت کے اعتبار سے انلیگل(illigal) ہے تو کیا شرعی اعتبار سے بھی اس کا کرنا جائز نہ ہو گا کیا مفتی صاحب؟؟

سائل: محمد انس ایس انڈمان


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


اشیاء کے سلسلہ میں فقہاء نے ایک اصولی قاعدہ بیان کیاہے۔ الأصل في الأشياء الإباحة حتى يدل الدليل على التحريم۔ (الأشباه والنظائر لابن نجيم، ص:٧٣) یعنی اشیاء میں اصل اباحت ہیں جب تک کہ ان کے حرام ہونے پر کوئی دلیل شرعی نہ ہو۔


اس قاعدے کا مطلب یہ ہے کہ جن اشیاء کے بارے میں قرآن وسنت خاموش ہیں، یعنی قرآن وسنت میں جن اشیاء کی حلت وحرمت مذکور نہیں، ایسی اشیاء اپنی اصل کے اعتبار سے مباح اور جائز سمجھی جائیں گی۔ البتہ اگر کسی چیز کے بارے میں دلائلِ شرعیہ سے کوئی صریح اور واضح حکم موجود ہو تو وہ اس زمرے میں نہیں آئے گی اور نہ ہی اس چیز کو اس اصول کی بنیاد پر مباح کہا جائے گا بلکہ اس کے بارے میں دلائلِ شریعت سے جو حکم متعین ہے وہی معتبر ہو گا۔ حاصل یہ کہ اگر کسی چیز کی حرمت یا کراہت شرعی دلائل سے ثابت نہ ہو تو اس کو اپنی اصل کے لحاظ سے مباح سمجھا جائے۔


لیکن حکومت  کی طرف سے جن چیزوں  پر پابندی لگائی گئی ہے وہ قانوناً جرم ہے، اور پکڑے جانے کی صورت میں  ہتکِ عزت اور ذلت کا اندیشہ بھی ہے، اور قید وبند کی صعوبتیں اور رسوائیاں اس پر مستزاد، جب کہ شرعاً  اپنے آپ کو اس طرح ذلت کے مواقع میں دھکیلنا جائز نہیں ہے۔


كنز العمال میں ہے۔

(٨٨٠٧) الوضين بن عطاء عن يزيد بن مرثد عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يحل لمؤمن أن يذل نفسه. قيل: وما إذلال نفسه يا رسول الله؟ قال: يعرض نفسه لإمام جائر۔ السلفي في انتخاب حديث الفراء۔ (كنز العمال ٣/٨٠٢)


 تاہم اگر کسی نے اس کا معاملہ کر ہی لیا تو فی نفسہ وہ شریعت کی نگاہ میں مال ہے اس لئے اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو حرام شمار نہیں کیا جائے گا البتہ سبب غیر کی وجہ سے ان چیزوں سے جن پر حکومت روک لگادیں اس سے اجتناب ضروری ہے، باقی فی نفسہ وہ شئی حلال شمار ہوگی۔


فتاوی شامی میں ہے۔

والحاصل أن جواز البیع یدور مع حل الانتفاع۔ (فتاوی شامی باب البيع الفاسد، ٧/٢٦٠)


مسؤلہ صورت میں جن اشیاء سے حکومت نے روک لگائی ہے اس سے دفع ضرر کے خاطر اجتناب ضروری ہے لیکن وہ اشیاء شریعت کی نگاہ میں ممنوع و محجور نہیں ہے البتہ اگر وہ چیزیں حکومت کی ملکت ہو تو شرعی اعتبار سے بھی وہ ممنوع و محجور ہوجائے گا، اور اس کی آمدنی بھی حلال نہیں ہوگی۔


شرح المجلۃ میں ہے:

لایجوز لأحد أن یتصرف في ملك غیره بلا إذنه أو وکالة منه أو ولایة علیه، وإن فعل کان ضامنًا (شرح المجلة، ١/٦١ مادة: ٩٦ دار الکتب العلمیة، بیروت) واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: