سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
حضرت مفتی صاحب ۱۔ نابالغ بچوں کا پیسہ یا انکو کسی کا دیا ہوا کوئی بھی سامان انکے گھر کے کسی بھی کام کاج میں استعمال کرنا کیسا ہیں ۔۔؟
کیا انکی اجازت سے استعمال کرسکتے ہیں۔۔؟ اور وہ بچہ اجازت دے تو کیا انکی اجازت معتبر ہوگی۔۔؟
اور اگر والدین نے مسئلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اسکا استعمال کرلیا تو اسکے متعلق کیا حکم ہے؟
سائل: مولانا محمد ابن رحمۃ اللہ مجادری پالنپوری
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
جواب کو سمجھنے سے پہلے کچھ باتیں سمجھ لیں تاکہ مسئلہ سمجھنے میں آسانی ہو، بچوں کو جو تحفے تحائف ملتے ہیں وہ دو طرح کے ہوتے ہیں۔
اول وہ تحفے جو نابالغ بچوں کی سطح کے ہوتے ہیں جیسے بچوں کے کپڑے کھلونے اور بچوں کے لئے ان کے موافق کھانے پینے کی چیزیں اسی طرح دس بیس روپیے وغیرہ وغیرہ، وہ ان کی ملکیت شمار ہوگی، اور جو چیز نابالغ کی ملک ہو اس کا حکم یہ ہے کہ اسی بچہ کی ضروریات میں صرف کرنا ضروری ہے، والدین نہ دیگر اولاد پر خرچ کرسکتے ہیں، اور اس کے علاوہ کسی دوسرے کو دے بھی نہیں سکتے، بلکہ خود والدین بھی اپنی ضروریات میں استعمال نہیں کرسکتے۔
دوم وہ تحفے بچوں کی سطح کے اوپر ہوتے ہیں، جیسے دعوت وغیرہ میں بچہ کے ہاتھوں میں دس بیس کی نوٹ دینے کے بجائے پانچسو یا دوہزار کی نوٹ ہاتھ میں دینا اسی طرح کوئی اور ایسی چیز دینا جو عام طور پر عادتاً بچوں کو نہیں دی جاتی تو اس میں عرف ورواج کا اعتبار ہوگا، اگر عرف یہ ہے کہ یہ تحفے تحائف ماں باپ کو دینا مقصود ہوتے ہیں، صرف ظاہراً بچوں کے ہاتھ میں دیے جاتے ہوں جیسا کہ عام طور پر بچہ کی پیدائش کے وقت اسی طرح عقیقہ اور عام دعوتوں میں بچوں کے ہاتھ میں بڑی بڑی رقمیں دی جاتی ہے، تو اس میں عرف کا اعتبار ہوگا،
اگر عرف یہ ہے کہ اس طرح کی تقریبات میں وہ چیزیں بچے ہی کو دی جاتی ہیں تو پھر ان کا مالک بچہ ہی ہوگا، اگر عرف میں والدین کو دینا مقصود ہو تو ان چیزوں کے مالک والدین ہی ہوں گے، وہ اس میں جو چاہیں تصرف کرسکیں گے، پھر اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر وہ چیزیں والدہ کے رشتہ داروں نے دی ہوں تو والدہ ان کی مالک ہوگی، اور اگروالد کے رشتہ داروں نے دی ہوں تو اس کا مالک والد ہوگا، اور اگر رشتہ داروں کے علاوہ کسی دوسرے نے دی ہے تو والدین میں سے دونوں مالک ہوں گے۔
اور اگر کسی موقع پر ہدیہ دینے والے صراحت کردیں کہ یہ بچہ کے لیے یا اس کی والدہ یا والد کے لیے ہے تو جس کی صراحت کریں گے وہی اس کا مالک ہوگا۔
بہشتی زیور میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے اولاد کو دینے کے باب میں یہ وضاحت کے ساتھ یہ بات نقل کی ہے کہ: ختنہ وغیر کسی تقریب میں چھوٹے بچوں کو جو کچھ دیا جاتا ہے اس سے خاص اس بچے کو دنیا مقصود نہیں ہوتا بلکہ باپ کو دنیا مقصود ہوتا ہے اسلئے وہ سب نیوتہ بچے کی ملک نہیں بلکہ ماں باپ اسکے مالک ہیں جو چاہیں سو کریں البتہ اگر کوئی شخص خاص بچہ ہی کو کوئی چیز دیدے تو پھر وہی بچہ اس کا مالک ہے
جو چیز، نابالغ بچے کی ملک ہواس کا حکم یہ ہے کہ اسی بچے ہی کے کام میں لگاناچاہئے کسی کو اپنے کام میں لانا جائز نہیں خود ماں باپ بھی اپنے کام میں نہ لاویں نہ کسی اور بچے کے کام میں لگاویں ۔
اگر ظاہر میں بچے کو دیا ہے لیکن یقینا معلوم ہے کہ منظور تو ماں باپ ہی کو دینا ہے مگر اس چیز کو حقیرسمجھ کر بچے ہی کے نام سے دے دیا تو ماں باپ کی ملک ہے وہ جو چاہیں کریں پھر اس میں بھی دیکھ لیں اگر ماں کے علاقہ داروں نے دیاہے تو ماں کا ہے اگر باپ کے علاقہ داروں نے دیا ہے تو باپ کا ہے۔
جس طرح خود بچہ اپنی چیز کسی کو دے نہیں سکتا اسی طرح باپ کو بھی نابالغ اولاد کی چیز دینے کا اختیار نہیں اگر ماں باپ اس کی چیز کسی کو بالکل دے دیں یا ذرا دیر یا کچھ دن کے لئے اور مانگی دیویں تو اس کا لینا درست نہیں ، البتہ اگر ماں باپ کو نہوت کی وجہ سے نہایت ضرورت ہے وہ چیز کہیں اور سے ا ن کو نہ مل سکے تو مجبوری اور لا چاری کے وقت اپنی اولاد کی چیز لے لینا درست ہے۔ (بہشتی زیور باب نمبر پانچ بچوں کو دینے کا بیان)
امداد الفتاوی کا ایک سوال اور جواب بعنوان بچوں کو جو عطیات دیے جاتے ہیں ان کا حکم ملاحظہ فرمائیں۔
سوال نابالغ بچوں کو ان کے نانا یا دادا کچھ عطا کریں تو اس عطا کو بچوں کے ماں باپ ان بچوں پر کس طرح سے صرف کریں ؟ اگر روٹی کپڑے میں صرف کیا جائے تویہ ماں باپ کے ذمّہ ہے، تاوقتیکہ بالغ ہوں ، تو اس عطا کو امانۃً جمع کریں بلوغ ’’تک ، یا شیرینی و بالائی میں خرچ کر دیویں ، کیا صورت کریں ؟
الجواب:
في الدرالمختار: "و لطفله الفقیر الحرّ؛ لأنّ نفقة المملوك على ملكه و الغني في ماله الحاضر."
اس روایت سے معلوم ہوا کہ جو نابالغ مالک کسی مال کا ہو اول نفقہ اسی مال میں ہوگا۔ مال کے ہوتے ہوئے باپ پر واجب نہ ہوگا، پس صورتِ مذکورہ میں یہ عطیات اس نابالغ کے ضروری نفقات میں صرف کردیے جائیں ۔ (امداد الفتاوی قدیم ۳/ ٤٨٠ جدید، کتاب الہبہ، ٨ / ٦١ - ٦٢ ط: زکریا بک ڈپو سہارنپور)
صورت مسئولہ میں نابالغ بچوں کا پیسہ یا ان کو کسی کا دیا ہوا کوئی بھی سامان گھر میں خود ان کے کسی بھی کام کاج میں استعمال کرنا جائز ہے، اس میں ان کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔
اور اگر والدین نے اسکا استعمال کرلیاہے تو اس کی نوعیت کو دیکھا جائے گا کہ وہ کس قسم کا تحفہ تھا اگر پہلی قسم سے ہے تو والدین پر اس کا قرضہ شمار ہوگا اور اگر دوسری قسم سے ہے تو کوئی حرج نہیں ہے اس کو لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں