سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں کہ سرکار کی طرف سے لڑکیوں کی تعلیم و شادی کے لئے ایک اسکیم "سوکنیہ"نام سے چلائے جارہی ہے حس میں لڑکی کے سر پرست 18۔ سال کی عمر تک اس اکاونٹ میں ایک متعینہ رقم جمع کرتے ہیں اس مدت میں جو رقم جمع ہوتی ہے اس میں سرکار کی طرف سے 8 فی صد رقم مزید ملاکر واپس کیا جاتا ہے۔ جو جمع شدہ رقم پر بیاج ایک شکل ہو سکتی ہے حالا.ت اور بڑھتی مہنگائی کے پیش نظر لڑکی کی شادی تعلیم وغیرہ کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے کیا یہ رقم جمع کرنا جائز ہے؟ مدلل جواب دیکر عنداللہ ماجور ہوں.
سائل: محمد ذاکر کریم
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
کسی بھی طرح کے سودی لین دین پر قرآن و حدیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں، اور سود شریعت میں علی الاطلاق حرام ہے خواہ اس کی مقدار کم ہو یا زیادہ، اسی طرح احادیث کی روشنی میں یہ ضابطہ مسلّم ہے کہ قرض دے کر اس سے کسی بھی قسم کا نفع اٹھانا جائز نہیں ہے یہ بھی سود کی قبیل سے ہے۔
مسلم شریف میں ہے۔
قال اللّٰہ تعالی: وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیة (البقرة: ۲۷۵)، عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء۔ (الصحیح لمسلم، ۲/ ۷۲، ط:المکتبة الأشرفیة دیوبند)
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے۔
عن إبراهيم، قال: «كل قرض جر منفعة، فهو ربا»."مصنف ابن أبي شيبة (٤/٣٢٧):
اعلاء السنن میں ہے۔
قال ابن المنذر أجمعوا علی أن المسلف إذاشرط علی المستسلف زیادة أو هدیة فأسلف علی ذلك، إن أخذ الزیادة علی ذلك ربا۔ (اعلاء السنن ١٤/٥١٣ باب کل قرض جر منفعة، کتاب الحوالة، ط: إدارة القرآن)
فتاوی شامی میں ہے:
وفي الأشباه: كل قرض جر نفعاً حرام۔ (فتاوی شامی ٧/٣٩٥ مطلب کل قرض جر نفعًا)
اسی طرح شامی میں ہے۔
الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب البیوع، باب الربا، ۷/ ۳۹۸\٤۰۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
مسئولہ صورت میں سوال میں مذکورہ اسکیم بلاشبہ حرام ہے، کسی مسلمان کے لیے اس اسکیم کے تحت بچیوں کا اکاوٴنٹ کھلواکر اس اس سے فائدہ اٹھانا ہرگز ہرگز جائز نہیں۔
کیوں کہ مذکور اسکیم کا طریقہ کار سودی منافع حاصل کرنے کے حکم میں ہے، والدین کا ہر مہینہ اکاؤنٹ میں روپیہ جمع کروانے کی حیثیت قرض کی ہے اور قرضہ کی اس رقم کو آٹھ فیصد بڑھا کر دیا جارہاہے یہ قرض پر سودی معاملہ کرناہے، لہذا اس قرض کے بدلہ میں جو بھی اضافی رقم دی جارہی ہے اس رقم کا لینا اور اسے اپنے کسی بھی مد میں خرچ کرنا ناجائز اور حرام ہے۔
اور اگر اس کو کسی نے لے لی ہے، تو حکومت کی اسکیم میں جتی رقم جمع کی ہے اتنی ہی رقم استعمال کرنے کی گنجائش ہے اور زائد رقم کا بلا نیت ثواب صدقہ کرنا واجب ہے، اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے۔
اس سلسلہ میں فتاوی دارالعلوم کا ایک فتاویٰ ارسال کرتاہوں اس کا بغور مطالعہ فرمائیں۔
سوال نمبر: 171049
عنوان:سکنیا سمردھی یوجنا كا حكم
سوال:حکومت ہند کی طرف سے ایک اسکیم بچیوں کیلئے جاری کی گئی ہے جس میں بچی کے نام سے بینک میں کھاتا کھولاجاتا ہے اور ایک خاص مقدار میں رقم کھاتے میں ڈالتے رہنے کو کہا جاتا ہے پھر ایک مدت کے بعد اس کھاتے میں موجود پیسوں کی تناسب سے حکومت بچیوں کو کچھ پیسے دیتی ہے ان کی امداد کی مد میں اور پہلے اکاؤنٹ کھلواکر پیسے ڈلوانا شاید اس لیے ہے کہ بچی کے سرپرست بچی کی طرف سے بالکل لاپرواہ نہ ہوجائے تو کیا اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے کی اجازت ہے؟
جواب نمبر: 171049
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:816-125T/N=12/1440
سُکَنْیا سمرِدِّھی یوجنا:بچیوں کی تعلیم اور ان کی شادی میں آسانی وسہولت کے مقصد سے جاری کی گئی ہے۔ اور یہ کئی سالوں سے جاری ہے ؛ البتہ ۲۳/ جولائی ۲۰۱۸ء سے اس میں کچھ تبدیلی ہوئی ہے۔اس وقت یہ اسکیم درج ذیل شرائط وتفصیلات کے ساتھ جاری ہے:
(۱): یہ اسکیم صرف دس سال سے کم عمر کی بچیوں کے لیے ہے۔
(۲): اس اسکیم کی سالانہ قسطوں کی کم از کم مقدار ڈھائی سو روپے اور زیادہ سے زیادہ مقدار :ڈیرھ لاکھ روپے ہے، ان میں سے کوئی بھی مقدار منتخب کی جاسکتی ہے۔ اور اس میں متعینہ قسطیں ماہانہ اور سالانہ دونوں طرح جمع کی جاسکتی ہیں۔
(۳): ۱۴/سال تک مسلسل متعینہ قسطیں جمع کی جائیں گی، اس کے بعد کوئی قسط جمع نہیں کی جاسکتی۔اور جب بچی کی عمر ۲۱/ سال ہوجائے گی تو سالانہ ۵،۸٪سے ،۱،۹٪/ فیصد انٹرسٹ کے ساتھ کل رقم ملے گی ۔
اس اسکیم میں انٹرسٹ کا فیصد سب سے زیادہ ہے، عام طور پر بہت زیادہ ۸٪فیصد تک انٹرسٹ دیا جاتا ہے، اس سے زیادہ نہیں۔ ماہانہ ایک ہزار جمع کرنے کی صورت میں ۱۴/ سال تک جمع شدہ کل رقم: ۱۶۸۰۰۰ہوگی اور ۲۱/ سال پر چھ لاکھ یا اس سے کچھ زیادہ رقم ملے گی۔
(۴): یہ اسکیم لڑکی کے ماں، باپ یا گود لی ہوئی بچی کا قانونی گارجین لے سکتا ہے۔
(۵): اس اسکیم کا کھاتہ پوسٹ آفس یا کسی بھی سرکاری بینک میں کھلوایا جاسکتا ہے۔
(۶):ا س اسکیم میں سارا پیسہ بہ ذریعہ چیک جمع کیا جائے گا، آن لائن وغیرہ نہیں۔
(۷): اگر کسی سال متعینہ قسط جمع نہیں کی گئی تو پلانٹی لگے گی۔
(۸): جب بچی کی عمر اٹھارہ سال ہوجائے تو جتنا جمع کیا جاچکا ہو، اس کا ۵۰/ فیصد نکال سکتے ہیں،مثلاً ۲۵۰/ ماہانہ والی اسکیم میں ایک لاکھ، دس ہزار، ۴۰۵ / روپے نکال سکتے ہیں۔ اور کل رقم ۲۱/ سال پر ملے گی۔
(۹): ۲۱/ سال پر بہر صورت اکاوٴنٹ میجور ہوجائے گا اور جمع شدہ رقم پر مزید انٹرسٹ نہیں دیا جائے اگرچہ پیسہ کبھی بھی نکالا جائے ۔ اور اگر ۲۱/ سال سے پہلے بچی کی شادی کردی گئی تو ۲۱/ سال سے پہلے ہی اکاوٴنٹ میچور ہوجائے گا اور انٹرسٹ کا سلسلہ بند ہوجائے گا۔
(۱۰): ایک آدمی صرف ۲/ بچیوں کے لیے اس طرح کا اکاوٴنٹ کھلواسکتا ہے، اُس سے زیادہ نہیں اگرچہ اس کی کئی بچیاں ہوں؛ البتہ اگر ۲/ جڑواں بچیاں ہوں تو تین تک کھلواسکتے ہیں؛ لیکن دونوں جڑواں بچیوں کا پڑماڑ پتر جمع کرنا ہوگا۔
درج بالا شرائط وتفصیلات کی روشنی میں یہ بات اچھی طرح واضح ہے کہ سکنیا سمردھی یوجنا میں ایک مدت کے بعد جو کئی گنا زائد رقم ملتی ہے، وہ سود کے اصول پر ملتی ہے اوربچی کے ماں باپ مختلف قسطوں میں بچی کے نام اس کے اکاوٴنٹ میں جو رقم جمع کرتے ہیں، اس کی حیثیت شرعاً قرض کی ہوتی ہے اور ایک مدت کے بعد ملنے والا اضافہ سود ہوتا ہے؛ اس لیے سکنیا سمردھی یوجنا نامی اسکیم بلاشبہ سودی اسکیم ہے، کسی مسلمان کے لیے اس اسکیم سے فائدہ اٹھانا ہرگز جائز نہیں۔
قال اللّٰہ تعالی:وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیة (البقرة: ۲۷۵)، عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (الصحیح لمسلم، ۲: ۷۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب البیوع، باب الربا، ۷: ۳۹۸- ۴۰۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ﴿وَلَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ أي بالحرام، یعني بالربا، والقمار، والغصب والسرقة۔ (معالم التنزیل ۲: ۵۰)۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔۔
دارالافتاء ۔۔ دارالعلوم دیوبند
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں