سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب بڑے ادب سے آپ کی خدمت میں ایک سوال عرض ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایک صاحب کی تقریبا چار ہزار سے زیادہ فجر کی نماز قضا ہے کم و بیش تو اس قضا نمازوں کو ادا کرنے کا طریقہ کیا ہے مسلسل یہ ادا کرنا بھی نہیں ہوتی کبھی ایک دن ادا کی پھر درمیان میں وقفہ پڑ جاتا ہے تو بچی ہوئی باقی نمازوں کو کس طرح سے ادا کیا جائے اس کا طریقہ کیا ہو ذرا جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں جزاک اللہ
سائل: محمد اسلم میزابی ایولے واڑی پونہ مہاراشٹر
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
چھوٹی ہوئی نمازوں کو قضاء کرنے کا اصل طریقہ تو یہی ہے کہ قضا نمازوں کی تعداد معلوم ومتعین ہے تو ترتیب سے ان نمازوں کی قضا کریں، یعنی دن اور تاریخ کی تعیین کے ساتھ قضا کی کریں، لیکن اگر نمازیں زیادہ ہوں جن کا حساب لگانا اور دن وتاریخ کی تعیین کرنا دشوار ہو اور متعین طور پر قضاشدہ نمازوں کی تعداد معلوم نہ ہو تو پہلے اپنی رائے اورخیال غالب سے متعین کرلیں کہ کتنی نمازیں فوت ہوئی ہے، پھر جتنے سالوں یامہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیں انہیں الگ سے لکھ لیں، پھر قضا کرتے وقت یہ نیت کریں کہ سب سے پہلے جوفجر چھوٹ گئی ہے وہ قضاکرتا ہوں، یا یہ نیت کریں کہ جہ سب سے آخر میں چھوٹی ہے اس کی قضاء کرتاہوں، اسی طرح پھر دوسری نمازوں کی قضاء کی نیت کریں ۔
مسؤلہ صورت میں آپ اپنی نمازیں اوقات مکروہہ کے علاوہ کبھی بھی اور کسی بھی وقت کرسکتے ہیں چاہے ایک ساتھ کریں یا کبھی کریں کبھی چھوڑ دیں سا جائزہے اور جو قضاء کا طریقہ بتایا گیا ہے اس ترتیب کو سامنے رکھتے ہوئے آپ اپنی ساری نمازوں کی قضاء کرسکتے ہیں۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے
كثرت الفوائت نوى أول ظهر عليه أو آخره ۔۔۔۔۔ قوله كثرت الفوائت إلخ مثاله: لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين؛ لأن فجر الخميس مثلاً غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول: أول فجر مثلاً، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولاً، أو يقول: آخر فجر، فإن ما قبله يصير آخراً، ولايضره عكس الترتيب؛ لسقوطه بكثرة الفوائت۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٢/٥٣٨) واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں