بدھ، 2 فروری، 2022

رضامندی کے بغیر کسی سے رقم وصول کرنا

 سوال

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

مسئلہ یہ کہ ایک کمیٹی ہے جو ایک گروپ چلاتی ہے مطالعہ کیجئے انعام پائے اس میں ایک مہینے تک سوال کیۓ جاتے ہیں اور صحیح جوابات دینے والوں کے درمیان قرعہ اندازی ہوتی ہے جسکا نام نکتا ہے اسکو انعام دیا جاتا ہے اب کسی وجہ سے انکے پاس پیسوں کا انتظام نہی ہے اب انہوں نے گروپ میں اعلان کیا ہے کہ جو 30 روپئے فیس ادا کرے گا اس کو گروپ میں رکھا جائے گا ورنہ نکالدیا جائےگا کیا اس طرح فیس ادا کرنا اور انہی کے درمیان تقسیم کرنا جائز ہے یا نہی ؟ اور اگر لازم نہ کیا جاۓ بلکہ اختیار دیا جاۓ فیس ادا کرنے کا تو کیا حکم ہے ؟ سائل: محمد ارشاد بھوپال


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ


صورتِ  مسئولہ میں طیبِ  نفس کے بغیر زبردستی کسی سے پیسے لینا شرعاً درست نہیں، لہذا انہوں نے گروپ میں جو اعلان کیا ہے کہ جو 30 روپئے فیس ادا کرے گا اس کو گروپ میں رکھا جائے گا ورنہ نکالدیا جائےگا کیا، یہ ان کی شرط درست نہیں ہے۔


روح القرآن (ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی) اور معارف القرآن (مفتی شفیع صاحب) میں اس آیت۔ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَتَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَـکُمْ بَیْنَـکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلآَّ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ۔ کی تفسیر میں اسی طرف اشارہ ہے۔

 ترجمہ (اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقے سے نہ کھائو مگر یہ کہ تجارت ہو آپس کی خوشی سے۔

  

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر بقلم ہے، کہ اس آیت میں لاَ تَاْکُلُوْٓا کا لفظ آیا ہے، جس کا معنی ہے ”مت کھائو“۔ لیکن مراد اس سے صرف کھانا نہیں بلکہ ہر وہ تصرف ہے جو دوسرے کے مال میں غلط طریقے سے کیا جائے اور اس سے فائدہ اٹھایاجائے۔ چاہے وہ چیز کھانے کی ہو یا کھانے کی نہ ہو۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود اور جمہور صحابہ کے نزدیک اس میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو شرعاً ممنوع اور ناجائز ہیں۔ چوری، ڈاکہ، غصب، خیانت، رشوت، سود ‘ قمار اور تمام معاملاتِ فاسدہ جن سے شریعت نے روکا ہے وہ سب اس میں داخل ہیں۔ بالباطل سے تمام ناجائز طریقے مراد ہیں جن پر شریعت نے پابندی لگائی ہے۔ حرام چیز تو حرام ہی ہے لیکن حلال چیز بھی اگر باطل اور ناجائز طریقے سے حاصل کی جائے تو وہ بھی حرام ہوجاتی ہے۔ باطل اور ناجائز طریقوں سے مراد کاروبار، تجارت اور لین دین کے وہ طریقے ہیں جن میں معاملہ کے دونوں فریقوں کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک کا مفاد محفوظ ہوتا ہے دوسرا ضرر یا غرر کا ہدف بنتا ہے اور یا وہ معاملہ مُفْضِی اِلَی المُنَازَعَۃ ہوتا ہے۔


البتہ کمیٹی بنائی جائے اور اس میں یہ اختیار ہو کہ جو خوشی  سے دینا چاہے دے سکتا ہے اور جو نہ دے ان پر کوئی جبر نہ ہو تو جائز ہے۔ فقط واللہ اعلم۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا


کوئی تبصرے نہیں: