سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
مفتیان کرام ایک مسئلہ معلوم کرنا ہے مسئلہ یہ ہے ایک صاحب کی امروہہ میں دکان ہے وہ وہاں سے اپنی دکان کے کچھ سامان وغیرہ کے فوٹو بھیجتے ہیں اور ایک سامان کی قیمت 2000 بتاتے ہیں پھر میں ان فوٹو کی تشہیر کرتا ہوں اور جو خریدنے کے لئے کہتا ہے اس سے میں 2500کی قیمت طے کرتا ہوں اور سامان پہنچانے کی ذمہ داری امروہہ والے صاحب کی ہے لیکن خریدنے والا سامان پانے کے بعد پیسے میرے اکاؤنٹ میں ڈالتا ہے پھر میں 2000 روپئے امروہہ والے صاحب کے اکاؤنٹ میں ڈال دیتا ہوں کیا اس طرح کا کاروبار میرے لئے درست ہے؟
سائل: عبد الصمد ہریدوار
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
مذکورہ صورت میں اس شخص کی حیثیت وکیل بالبیع کی ہے اور وکیل شرعاً امین یعنی امانت دار ہوتا ہے، لہذا وکیل بالبیع کے لئے موکل کے بتائی ہوئی رقم سے زائد قیمت میں بیچنا تو جائز ہے البتہ اس زائد رقم کا مالک موکل ہے نہ کہ وکیل اس لئے وکیل کے لئے اس زائد رقم کو رکھنا جائز نہیں ہے، اگر وکیل اپنی محنت کی اجرت لینا چاہتا ہو، تو معاملہ کو صاف رکھتے ہوئے شروع میں ہی اس کام کی اجرت طے کرسکتاہے۔ (مستفاد: امداد الاحکام: ١٤٤ کتاب الوکالة)
مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے۔
إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا. فليس له أن يطالب بالأجرة۔ (مجلۃ الاحکام العدلیۃ: الباب الثالث فی بیان احکام الوکالۃ، ٤/٤٤٥ ط: مکتبۃ رشیدیۃ)
شامی میں ہے۔
فرع: الوکیل إذا خالف، إن خلافا إلی خیر في الجنس کبیع بألف درہم فباعہ بألف ومأة نفذ (وفي الشامی) قال في الہامش: وکلہ أن یبیع عبدہ بألف وقیمتہ کذلک ثم زاد قیمتہ إلی ألفین لا یملک بیعہ بألف بزازیة(شامی: ۸/۲۵۷، کتاب الوکالة، ط: زکریا) واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں