اتوار، 27 فروری، 2022

نکاح کی اور رجسٹری کی اجرت کا شرعی حکم سوال نمبر ١٨٦

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

امید ہے کہ آپ خیریت سے ہونگے حضرت مجھے ایک مسلہ معلوم کرنا ہے مسئلہ یہ ہے نکاح کی اجرت کا کیا حکم ہے؟ اور وہ کس کا حق ہے جو نکاح کے رجسٹر کی فیس 100 ہوتی‌‌ ہے اس کا لینا جائز ہے یا نہیں اور وہ پیسہ امام کے ہوتے ہیں یا مسجد کے حضرت اس مسلہ کی وضاحت فرمائیں؟ عین نوازش ہوگی۔

سائل: محمد فیضان جلال آباد


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


نکاح کی اجرت کا لینا جائز ہے کیوں کہ نکاح پڑھانے والے کے لئے خطبہ مسنونہ کے بعد ایجاب و قبول کرانا رجسٹر پر دولہا دولہن سے دستخط کرانا ، وکیل اور گواہان سے دستخط کرانا پھر خود دستخط کرکے رجسٹر کو مکمل کرنا، ایک کاپی لڑکی والوں کو اور ایک کاپی لڑکے والوں کو دینا اور ایک کاپی اپنے پاس ریکارڈ میں رکھنا، یہ سب امور نکاح پڑھانے والے کے ذمہ ہوتے ہیں اور فقہاء متاخرین نے ان امور کی بجاآوری پر اجرت لینے کی اجازت دی ہے۔


 فتاوی عالمگیری میں ہے 

وکل نکاح باشرہ القاضی وقد وجبت مباشرتہ علیہ، کنکاح الصغار والصغائر فلایحل لہ أخذ الأجرة علیہ ومالم تجب مباشرتہ علیہ حل لہ أخذ الآخرة علیہ، کذا فی المحیط، واختلفوا فی تقدیرہ والمختار للفتوی أنہ إذا عقد بکراً یاخذ دیناراً وفی الثیب نصف دیناراً ویحل لہ ذلک ہکذا قالوا ۔ کذا فی البرجندی (فتاوی عالمگیری ٣٤٥/۳)


البحر الرائق میں ہے۔

قال في البزازية من كتاب القضاء وإن كتب القاضي سجلا أو تولى قسمة وأخذ أجرة المثل له ذلك ...وذكر عن البقالي في القاضي يقول إذا عقدت عقد البكر فلي دينار وإن ثيبا فلي نصفه أنه لا يحل له إن لم يكن لها ولي فلو كان ولي غيره يحل بناء على ما ذكروا۔ (البحر الرائق - ٥/٢٦٣)


نکاح پڑھانے میں جو اجرت دی جاتی ہے وہ در حقیقت نکاح خوانی کی اجرت ہے ، جس کا مستحق اور حق دار نکاح خواں ہوتا ہے ، لہذا جس نے نکاح پڑھایا ہے یا جرت اسی کا حق ہے ، نہ کہ امام صاحب کا ۔ ( مستفاد: امداد الفتاوی ۲/۲۷۸، فتاوی محمودیہ ڈابھیل ۱۷ / ۹۷، کفایت لمفتی، زکریا مدلل ٥/١٤٦)


اسی طرح شامی میں ہے۔

والأجرة إنما تكون في مقابلة العمل. (رد المحتار  ٤/٣٠٧)


مسؤلہ صورت میں نکاح کی اجرت لینا جائز ہے اور اس کے حقدار نکاح پڑھانے والے ہیں چاہے وہ مسجد کا امام ہو یا کوئی اور ہو اسی طرح جو نکاح کے رجسٹر کی فیس ١٠٠ ہوتی‌‌ ہے اس کا لینا بھی جائز ہے، اور جس رجسٹر میں وہ اندراج ہوتاہے اگر وہ مسجد یا ٹرسٹ کا ہے تو وہ پیسے بھی انہی کے ہوں گے اور اگر امام صاحب کا ہے تو وہ پیسے امام صاحب کے ہوں گے۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: