جمعہ، 25 فروری، 2022

بینک ملازمین کا اور جوا،سٹہ لگانے والے کا چندہ لینا سوال نمبر ١٧٩

 سوال

السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

بینک ملازمین کا اور جوا،سٹہ لگانے والے ان کا چندہ اہل مدارس اور أہل مساجد کے لینا کیسا ہے۔

سائل: عبد الصمد ہریدوار


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


مدارس و مساجد اللہ کے گھر ہیں اور ہماری مقدس جگہیں ہے۔ اس میں خالص حلال اور جائز کمائی ہی استعمال کرنا چاہئے، لہذا جن لوگوں کی اکثر آمدنی حرام ہو ان کے چندے کو مدارس و مساجد میں لگانا اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ یہ یقین سے معلوم نہ ہو جائے کہ یہ حلال آمدنی کا حصہ ہے یا خود وہ شخص یہ بتادے کہ یہ حلال آمدنی کا حصہ ہے۔

البتہ وہ حرام مال سے جان چھڑانے کے لئے ثواب کی نیت کئے بغیر حرام کا پیسہ مدارس کے مستحق زکات طلبہ پر بطور صدقہ صرف کرنے کے لئے دیں تو اس صورت میں بھی وہ پیسہ اس سے لے کر صرف  مستحقِ زکات طلبہ کو دینا جائز ہوگا، مساجد میں تو کسی حال میں جائز نہیں ہے اور مدارس کی کسی دوسرے مد مثلاً تعمیرات یا اساتذہ کی تنخواہوں وغیرہ میں اس رقم کا لگانا بھی جائز نہیں ہوگا۔


مسؤلہ صورت میں بینک ملازمین اور جوا، سٹہ لگانے والے کا چندہ اہل مدارس اور أہل مساجد کے لئے لینا جائز نہیں ہے، البتہ اس کی اکثر آمدنی حلال ہو یا اس کو وراثت میں ملا ہو تو لینا جائز ہے، الا یہ کہ یقین سے معلوم ہو کہ یہ حرام آمدنی سے چندہ دے رہا ہے تو اس کا قبول کرنا جائز نہیں ہے۔


شامی میں ہے۔

ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ ، فصل فی البیع ،٩/۵۵٣، ط: مکتبة زکریا دیوبند)


معارف السنن میں ہے۔

قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقہائنا کالہدایة وغیرہا: أن من ملک بملک خبیث، ولم یمکنہ الرد إلی المالک، فسبیلہ التصدقُ علی الفقراء قال: والظاھر إن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغ ذمتہ، ولا یرجو بہ المثوبة (معارف السنن، أبواب الطہارة، باب ما جاء: لا تقبل صلاة بغیر طہور، ۱/٣٤ ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)


الأشباه والنظائر میں ہے۔

وإن کان الرجل یأخذ المال من حیث وجده ولا یتأمل في الحلال والحرام، فالسوال عنه حسن. (الأشباه والنظائر ۱۵۸).


الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے۔

رجل دفع إلى فقير من المال الحرام شيئاً يرجو به الثواب يكفر، ولو علم الفقير بذلك فدعا له وأمّن المعطي كفرا جميعاً.

ونظمه في الوهبانية وفي شرحها: ينبغي أن يكون كذلك لو كان المؤمّن أجنبياً غير المعطي والقابض، وكثير من الناس عنه غافلون ومن الجهال فيه واقعون. اهـ.

قلت: الدفع إلى الفقير غير قيد، بل مثله فيما يظهر لو بنى من الحرام بعينه مسجداً ونحوه مما يرجو به التقرب؛ لأن العلة رجاء الثواب فيما فيه العقاب ولايكون ذلك إلا باعتقاد حله (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٣/٢١٩)


قبول ہدیہ کے بارے میں فتاوی عالمگیری میں لکھا ہے۔

آکل الربا وکاسب الحرام أهدیٰ إلیه، أو أضافه وغالب ماله حرام، لایقبل ولا یأکل ما لم یخبره أن ذلک المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن کان غالب ماله حلالاً لا بأس بقبول هدیته والأکل منها. (الفتاویٰ الهندیة کتاب الکراهیة/ الباب الثاني عشر  ٥/٣٤٣)۔


اسی طرح فتاوی بزازیہ علیهامش الفتاویٰ الهندیة میں ہے۔

غالب مال المهدي إن کان حلالاً، لا بأس بقبول هدیته وأکل ماله، ما لم یتعین أنه من حرام، وإن غالب ماله الحرام لا یقبلها ولا یأکل، إلا إذا قال: إنه حلال ورثه أو استقرضه. (البزازیة علی هامش الفتاویٰ الهندیة، کتاب الکراهیة/ الفصل الرابع في الهدیة والمیراث ٦/ ٣٦٠ زکریا)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: