سوال
السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
چمڑے کے موزے پر بارش کا کیچڑ لگ جائے تو سوکھ جانے سے پاک ہوجائے گا یا دھلنا ضروری ہے
سائل: عبدالرحمن جمالپوری
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
راستے پر بارش گرنے کی وجہ سے کیچر ہوجائے تو اس کی دو صورتیں ہے۔
(١) راستے پر پیدا ہونے والا کیچڑ خالص بارش کے پانی سے ہی ہوا ہے اس میں ناپاکی ملی ہوئی نہیں ہے، اور اس میں نجاست کا اثر محسوس نہ ہو جیسے گٹر وغیرہ کا پانی نہ ملا ہو، تو ایسی صورت میں سڑکوں پر پیدا ہونے والی کیچڑ ضرورت اور عموم بلوی کی وجہ سے پاک ہے۔ اس کیچڑ کی چھینٹیں کسی پر لگ جائیں اور وہ شخص دھوئے بغیر نماز پڑھ لے، تو اس کی نماز درست ہوگی، البتہ احتیاطا دھوکر نماز پڑھنی چاہیے۔
(٢) اور اگر اس راستے پر گٹر کا پانی بھی آتا ہے تو دیکھا جائے گا کہ وہاں بارش کثرت سے ہوتی ہو اور اسی راستے سے آنا جانا ہو اس کے علاوہ کوئی راستہ نہ ہو تو وہی علت ضرورت اور عموم بلوی کی وجہ سے وہ پاک شمار ہوگا، البتہ اگر یہ اسے دھولیا جائے اور پھر نماز پڑھیں تو بہت اچھا ہے، اور اگر بارش کبھی کبھی ہوتی ہو اور دوسرا راستہ بھی ہو تو وہ کیچڑ عام کیچڑ کے حکم میں ہوگا اس کے لگنے سے ناپاکی کا حکم ہوگا، اور اس کیچڑ میں نجاست صاف نظر آرہی ہو یا ظنِ غالب ہو، یا پھر پانی کا رنگ اور بُو نجاست کے ملنے کی وجہ سے بالکل تبدیل ہوگیا ہو تو ایسی صورت میں اس کا دھونا ضروری ہوجائے گا۔
صورت مسئولہ میں اگر پہلی صورت ہے تب تو کوئی مسئلہ نہیں ہے اور اگر دوسری صورت ہے اور چمڑے کے موزے پر ایسی نجاست لگی ہو، جو جسم والی نہیں ہوتی ہے، مثلاً: پیشاب وغیرہ، تو ایسی صورت میں اس کو پانی سے دھونا ضروری ہے، چاہے نجاست تر ہو یا سوکھ چکی ہو، بغیر دھوئے پاک نہیں ہوسکتی ہے۔
اور اگر کوئی ایسی نجاست ہے جو نظر آنے والی ہے، جیسے گوبر وغیرہ، تو اگر اسے پانی سے یا مٹی سے یا کسی بھی چیز سے رگڑ کر اس طرح صاف کرلیا جائے کہ نجاست کا کوئی اثر باقی نہ رہے، تو وہ پاک ہوجائے گی۔
فتاوی شامی میں ہے۔
قوله: وطين شارع مبتدأ خبره قوله: عفو والشارع الطريق ط. وفي الفيض: طين الشوارع عفو وإن ملأ الثوب للضرورة ولو مختلطا بالعذرات وتجوز الصلاة معه. اهـ. . وقدمنا أن هذا قاسه المشايخ على قول محمد آخرا بطهارة الروث والخثي، ومقتضاه أنه طاهر لكن لم يقبله الإمام الحلواني كما في الخلاصة. قال في الحلية: أي: لا يقبل كونه طاهرا وهو متجه، بل الأشبه المنع بالقدر الفاحش منه إلا لمن ابتلي به بحيث يجيء ويذهب في أيام الأوحال في بلادنا الشامية لعدم انفكاك طرقها من النجاسة غالبا مع عسر الاحتراز، بخلاف من لا يمر بها أصلا في هذه الحالة فلا يعفى في حقه حتى إن هذا لا يصلي في ثوب ذاك. اهـ.
أقول: والعفو مقيد بما إذا لم يظهر فيه أثر النجاسة كما نقله في الفتح عن التجنيس. وقال القهستاني: إنه الصحيح، لكن حكى في القنية قولين و ارتضاهما، فحكى عن أبي نصر الدبوسي أنه طاهر إلا إذا رأى عين النجاسة، وقال: وهو صحيح من حيث الرواية وقريب من حيث المنصوص؛ ثم نقل عن غيره فقال: إن غلبت النجاسة لم يجز، وإن غلب الطين فطاهر. ثم قال: وإنه حسن عند المنصف دون المعاند اهـ.
والقول الثاني مبني على القول بأنه إذا اختلط ماء وتراب وأحدهما نجس فالعبرة بالغالب وفيه أقوال ستأتي في الفروع.
والحاصل أن الذي ينبغي أنه حيث كان العفو للضرورة، وعدم إمكان الاحتراز أن يقال بالعفو وإن غلبت النجاسة ما لم ير عينها لو أصابه بلا قصد وكان ممن يذهب ويجيء، وإلا فلا ضرورة. وقد حكى في القنية أيضا قولين فيما لو ابتلت قدماه مما رش في الأسواق الغالبة النجاسة، ثم نقل أنه لو أصاب ثوبه طين السوق أو السكة ثم وقع الثوب في الماء تنجس۔ (فتاوی شامی: مطلب في العفو عن طين الشارع ١/٥٣٠)
محيط برهاني میں ہے۔
إذا أصابت النجاسة خفاً أو نعلاً لم يكن لها جرم، كالبول والخمر فلا بد من الغسل رطباً كان أو يابساً.۔۔۔ وأما التي لها جرم إذا أصابت الخف أو النعل فإن كانت رطبةً لا تطهر إلا بالغسل، هكذا ذكر في الأصل ألا ترى أن الرطوبة التي فيها لو أصابته لا يطهر إلا بالغسل، فكذا إذا أصابته مع غيرها، وعن أبي يوسف رحمه الله: أنه إذا مسحه في التراب أو الرمل على سبيل المبالغة يطهر، وعليه فتوى من مشايخنا ؛ للبلوى والضرورة.وإن كانت النجاسة يابسةً يطهر بالحت والحك عند أبي يوسف۔ (محيط برهاني کتاب الطھارة، اﻟﻔﺼﻞ اﻟﺴﺎﺑﻊ ﻓﻲ اﻟﻨﺠﺎﺳﺎﺕ ﻭﺃﺣﻜﺎﻣﻬﺎ، ج١/٢٠٢ ط: دارالکتب العلمیہ، بیروت)
وفی فتاویٰ ہندیہ میں ہے۔
وما لا ينعصر يطهر بالغسل ثلاث مرات والتجفيف في كل مرة ؛ لأن للتجفيف أثراً في استخراج النجاسة۔ وحد التجفيف: أن يخليه حتى ينقطع التقاطر، ولا يشترط فيه اليبس. هكذا في التبيين۔ هذا إذا تشربت النجاسة كثيراً، وإن لم تتشرب فيه أو تشربت قليلاً يطهر بالغسل ثلاثاً. هكذا في محيط السرخسي۔ (الفتاوى الهنديۃ کتاب الطھارة، اﻟﺒﺎﺏ اﻟﺴﺎﺑﻊ ﻓﻲ اﻟﻨﺠﺎﺳﺔ ﻭﺃﺣﻜﺎﻣﻬﺎ، ج: ١/٤٢ ط: دارالفکر، بیروت)واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں