سوال
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔
کیا مسلمانوں کے بیت المال سے کسی کو انعامی رقم دی جاسکتی ہے، امید ہے کہ حضرات مفتیان کرام مدلل جواب ارسال فرمائیں گے۔
سائل: انصاری ساجد اختر مالیگاؤں ضلع ناسک
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
بیت المال کے قیام کیلئے اسلامی حکومت لازم ہے، جو بیت المال کی حفاظت دیکھ بھال تصرف فوجی طاقت کے ذریعہ کرتی رہے گی کیونکہ بیت المال در حقیقت اسلامی حکومت کے شعبہ مالیات اور خزانے کا نام ہے، اس پر حکومت اسلامیہ کا مکمل کنٹرول ہوتا ہے، مسلمانوں پر شرعا ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے اموال ظاہرہ کی زکات اس میں جمع کریں، اس میں مال غنیمت کا خمس اور مال فئ اور ٹیکس کا مال بھی جمع ہوتا ہے، پھر حکومت اسلامیہ کی ذمہداری ہے کہ وہ شرعی ضابطے کے مطابق مسلمانوں سے زکوٰۃ فطرہ وغیرہ وصول کرکے ان اموال کو مصارف میں صرف کریں۔
الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے۔
بیت المال یطلق علی الجہۃ التی تملک المال العام للمسلمین والمال العام ہنا: ہو کل مال تثبت علیہ الید في بلاد المسلمین ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ ۸/۲۴۲)
ہندوستان غیر اسلامی ممالک میں سے ایک ملک ہے جس میں بیت المال کا تصور مکن نہیں ہے۔
البتہ معاشرہ کے با اثر افراد جن میں معتبر علما بھی ہوں کوئی انجمن یا فنڈ قائم کرلیں جس کے تحت مسلمانوں سے امداد عطیہ وغیرہ وصول کرکے غرباء پر شریعت کے مطابق خرچ کریں تو شرعی اعتبار سے مستحسن اقدام ہوگا، لیکن اس طرح کے ادار ے کا نام بیت المال رکھنا درست نہیں ہے۔ (مستفاد: امداد المفتین ٨٨٣ قاموس الفقہ ٢/٣٤٩ فتاویٰ قاسمیہ ١٠/٢٦٥ )
صورت مسئولہ میں جہاں بیت المال کا قیام ممکن نہ ہو اور ٹرسٹ کے ماتحت کام ہورہا ہو اور ٹرسٹ دینے والوں کی رضامندی سے للہ رقم انعام میں دینا چاہے تو دے سکتے ہیں البتہ زکوۃ کی رقم ہو تو ضرورت مند کو بقدرِ ضرورت دے سکتے ہیں اور ضرورتمند نہ ہو تو نہیں دے سکتے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں