جمعہ، 25 فروری، 2022

وتر کی نماز میں تین کی جگہ دو رکعت پر سلام پھیر دینا سوال نمبر ١٨١

 سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے آپ الحمدللہ بخیر و عافیت ہونگے۔

سوال۔ ایک شخص وتر پڑھ رہا تھا اور دوسرے قعدہ میں تشہد درود شریف اور دعا ختم کر کے سلام بھی پھیر لیا لیکن دوسرا سلام ختم کے قریب تھا کہ اس کو اپنی تیسری رکعت یاد آگئی، تو کیا مذکورہ شخص کھڑا ہو کر تیسری رکعت پوری کر کے اخیر میں سجدۂ سہو کر لے یا نماز پھر سے پڑھے؟ بینوا بالتفصيل توجروا بالأجر الجزیل

سبیل: محمد ابن رحمۃ اللہ مجادری پالنپوری۔


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی

  

فرض واجب اور سنن مؤکدہ کو مکمل کرنے سے پہلے  ایک طرف یا دونوں طرف سلام پھیردے، تو جب تک اس نے سلام پھیر کر منافئ نماز میں سے کوئی کام نہ کیا ہو، (جیسے بات چیت کرنا، کھانا پینا، چلنا پھرنا، قبلے سے منہ پھیر لینا، اسی طرح دوسری نماز شروع نہ کی ہو وغیرہ وغیرہ) اور سلام کے بعد یاد آنے پر فوراً کھڑے ہوکر نماز مکمل کر لے اور آخر میں سجدہ سہو کرلے تو  اس کی نماز درست ہو جائے گی، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے، اسی طرح اگر صرف سجدہ سہو رہ گیا ہو تو سجدہ سہو بھی ادا کر سکتا ہے۔


صورتِ مسئولہ میں وتر کے دوسرے قعدہ میں تشہد درود شریف اور دعا ختم کر کے سلام  پھیر لیا لیکن دوسرا سلام ختم کے قریب تھا کہ اس کو اپنی تیسری رکعت یاد آگئی، اور اس نے منافئ نماز سے پہلے ہی کھڑے ہوکر نماز مکمل کرلی، اور آخر میں سجدہ سہو کرلیا تو نماز درست ہوگئی، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔


حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے۔

مصل رباعية فريضة أو ثلاثية ولو وتراً أنه أتمها فسلم ثم علم قبل إتيانه بمناف أنه صلى ركعتين أو علم أنه ترك سجدةً صلبيةً أو تلاويةً أتمها بفعل ما تركه وسجد للسهو لبقاء حرمة الصلاة۔

حاصل المسألة أنه إذا سلم ساهياً على الركعتين مثلاً وهو في مكانه ولم يصرف وجهه عن القبلة ولم يأت بمناف عاد إلى الصلاة من غير تحريمة وبنى على ما مضى وأتم ما عليہ۔ (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح ص: ٤٧٣)


بدائع الصنائع میں ہے۔

ولو سلم مصلي الظهر على رأس الركعتين على ظن أنه قد أتمها، ثم علم أنه صلى ركعتين، وهو على مكانه ، يتمها ويسجد للسهو أما الإتمام فلأنه سلام سهو فلا يخرجه عن الصلاة۔ وأما وجوب السجدة فلتأخير الفرض وهو القيام إلى الشفع الثاني۔ بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع۔ ١/١٦٤) واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: