پیر، 14 فروری، 2022

فلٹر پانی کا شرعی حکم

 سوال

السلام علیکم ورحمتہ اللّٰہ وبرکاتہ جی مجھے یہ معلوم کرنا ہے کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ فلٹر کا پانی نہیں پینا چاہئے کہ یہ دجال کے فتنوں میں سے ایک فتنہ ہے کیا یہ بات موضوع ہے یا اسکی کوئی حقیقت ہے جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں؟

سائل: محمد رضوان جمالپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


جن اشیاء کے بارے میں قرآن وسنت خاموش ہیں، یعنی قرآن وسنت میں جن اشیاء کی حلت وحرمت مذکور نہیں، ایسی اشیاء اپنی اصل کے اعتبار سے مباح اور جائز سمجھی جائیں گی۔لیکن اگر کسی چیز کے بارے میں دلائلِ شرعیہ سے کوئی صریح اور واضح حکم موجود ہو تو وہ اس زمرے میں نہیں آئے گی اور نہ ہی اس چیز کو اس اصول کی بنیاد پر مباح کہا جائے گا بلکہ اس کے بارے میں دلائلِ شریعت سے جو حکم متعین ہے وہی معتبر ہو گا۔ حاصل یہ کہ اگر کسی چیز کی حرمت یا کراہت شرعی دلائل سے ثابت نہ ہو تو اس کو اپنی اصل کے لحاظ سے مباح سمجھا جائے گا۔

اس لئے کہ قاعدہ یہ ہے کہ اشیاء میں اصل اباحت ہیں جب تک ان کے حرام ہونے پر کوئی دلیل شرعی نہ ہو


الأشباه والنظائر میں ہے۔

الأصل في الأشياء الإباحة حتى يدل الدليل على التحريم۔ (السيوطی، الأشباه والنظائر ١/٦٠)


صورت مسئولہ میں فلٹر پانی بھی اپنی اصلیت کے اعتبار سے حلال ہے اس کی حرمت یا کراہت کے سلسلے میں قرآن وحدیث وفقہ خاموش ہے۔

اورجو لوگ یہ کہتے ہیں کہ فلٹر کا پانی نہیں پینا چاہئے کہ یہ دجال کے فتنوں میں سے ایک فتنہ ہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے یہ موضوع اور من گھڑت بات ہے اس کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، جس نے کہاں ہے اس سے حوالہ طلب فرمائیں۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا


کوئی تبصرے نہیں: