سوال
السلام علیکم جناب مفتی صاحب ایک عورت کا انتقال ہوگیا اور اس کو اس کا شوہر قبر میں اتار سکتا ہے
سائل: عبداللطیف مہوا
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
عورت کے انتقال کے بعد قبر میں اس کے محارم بیٹا، والد، بھائی، چچا، ماموں وغیرہ ہی قبر میں اتاریں گے، اور اگر قبر میں اتارنے کے لئے عورت کے محرم رشتہ دار ناکافی ہوں، یا کوئی محرم نہ ہو تو بجائے کسی غیر محرم کے، شوہر اپنی بیوی کی میت کو قبر میں اتار سکتا ہے، بلکہ دوسرے اجنبی لوگوں کے مقابلہ میں شوہر ہی بہتر ہے۔
مسؤلہ صورت میں شوہر کا اپنی بیوی کی وفات کے بعد سوائے ہاتھ لگانے اور غسل دینے کے دوسری چیزیں جائز ہے، یعنی اس کا چہرہ دیکھنا بھی جائز ہے، اس کے جنازے کو کاندھا بھی دے سکتا ہے، اور اسے قبر میں اتارنا بھی جائز ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ بیوی کے محارم باپ، بیٹا، بھائی، چچا، ماموں وغیرہ میں سے کوئی اس کو قبر میں اتارے،
در المختار میں ہے۔
في الدر المختار: ویمنع زوجھا من غسلها ومسھا لامن النظر إلیھا علی الأصح. (الدر المختار مع الشامي، کتاب الصلاة، باب صلاة الجنائز، مکتبة زکریا دیوبند ٣/٩٠)
فتاوی عالمگیری میں ہے۔
وذو الرحم المحرم أولی بادخال المرأة من غیرہم، وکذا ذو الرحم غیر المحرم أولی من الأجنبي ۔ (الفتاوی الہندیة :۱/۲۲۷، کتاب الصلاة، باب الجنائز، الفصل السادس في القبر والدفن والنقل من مکان الی مکان، ط: زکریا)
بدائع الصنائع میں ہے۔
وذو الرحم المحرم أولى بإدخال المرأة القبر من غيره؛ لأنه يجوز له مسها حالة الحياة فكذا بعد الموت، وكذا ذو الرحم المحرم منها أولى من الأجنبي ولو لم يكن فيهم ذو رحم فلا بأس للأجانب وضعها في قبرها، ولا يحتاج إلى إتيان النساء للوضع۔ (بدائع الصنائع ١/٣٢٠)
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے۔
وذو الرحم المحرم أولى بإدخال المرأة ثم ذو الرحم غير المحرم ثم الصالح من مشايخ جيرانها ثم الشبان الصلحاء. (حاشية الطحطاوي على المراقي١/٦٠٩)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں