جمعہ، 4 فروری، 2022

کتابی تعلیم میں کسی ایک کتاب کو ضروری سمجھنا

 سوال

السلام علیکم ورحمتہ اللّٰہ وبرکاتہ 

جی مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ مسجدوں میں امام یا اور لوگ کسی بھی نماز کے بعد خاص طور سے عشاء یا فجر کی نماز کے بعد تعلیم کرتے ہیں یعنی کتاب پڑھتے ہیں اور بھت سے لوگ کسی ایک کتاب کو ہی متعین کر دیتے ہیں اور اسی کتاب کے پڑھنے کو ضروری سمجھتے ہیں اور کچھ لوگ تعلیم یعنی روزانہ کتاب پڑھنے کو ضروری سمجھتے ہیں اور اسے واجب اور فرض کا درجہ دے دیتے ہیں اور کسی ایک دن بھی کتاب پڑھنے کی غیر حاضری کو برا سمجھتے ہیں تو کیا یہ صحیح ہے یا غلط صحیح طریقہ کیا ہے جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔

سائل: محمد رضوان جمالپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


کتابی تعلیم کا مقصد چونکہ اپنے اندر اور دوسروں کے اندر دین داری پیداکرنا ہے، اس لیے  اس کی تعلیم میں کوئی ایسی کتاب ہو جو فضائل پر مشتمل ہو اسی وجہ سے  تعلیم میں عام طور فضائل اعمال کی تعلیم کی جاتی ہے، بانیٔ تبلیغ حضرت مولانا الیاس صاحب نے حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب سے عوام کے ذہنوں کو سامنے رکھ کر عام فہم انداز میں اس کتاب کو مرتب فرمایا ہے، تاکہ ہر ایک کے لیے سمجھنا اور عمل کرنا آسان ہو، اور اعمال کے فضائل سے اعمال کے کرنے کا شوق پیدا ہوتا ہو، اس کتاب کی تعلیم کرنے کا مطلب یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ دوسری کتابوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اُن کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔


البتہ نماز کے اوقات کا خیال رکھنا ضروری ہے نماز کے وقت کوئی بھی ایسا عمل کرنا جس سے نمازیوں کی نماز میں خلل پیدا ہو مکروہ ہے؛ اس لئے امام صاحب یا تو اتنی تاخیر سے کتاب پڑھیں کہ لوگ نماز سے فارغ ہو جائیں یا اتنی آہستہ آواز میں پڑھیں کہ نماز میں خلل پیدا نہ ہو۔


شامی میں ہے۔

أجمع العلماء سلفاً وخلفاً علی استحباب ذکر الجماعة فی المساجد وغیرہا ، إلا أن یشوش جہرہم علی نائمٍ ، أو مصلٍ ، أو قاريء (شامی: ٢/٤٣٤ زکریا) ۔


اور کتابی تعلیم میں یا کسی بھی جائز و مستحب کام کو لازم سمجھ کر کیا جائے اور نہ کرنے والے کو موردِ طعن ٹھہرایا جائے وہ بدعت ہے، اس لئے کہ جو کام بذاتِ خود مستحب و مندوب ہے، مگر اس کا ایسا التزام کرنا کہ رفتہ رفتہ اس کو ضروری سمجھا جانے لگے اور اس کے تارک کی ملامت کی جانے لگے تو وہ کام مستحب کے بجائے بدعت بن جاتا ہے۔


ماہ نامہ البینات ٤٣٣١۔ مارچ میں حضرت مفتی شفیع صاحب کی کتاب سنت و بدعت کے حوالے سے لکھا ہے کہ: یعنی یہ ضروری نہیں کہ کوئی چیز اصل ہی میں بری ہو تووہ بدعت ہوگی بلکہ وہ طاعات اور عبادات بھی جن کو شریعت نے مطلق چھوڑا ہے ان میں اپنی طرف سے قیود لگادینا یا ان کی کیفیات بدل دینا یا اپنی طرف سے اوقات کے ساتھ متعین کرکے لازم کردینا یہ بھی شریعت کی اصطلاح میں بدعت ہوگی اور شریعت اسلامی اس کو ناپسند کرے گی۔حضور کریم کا ارشاد ہے:

لاتختصوا لیلة الجمعة بقیام من بین اللیالی ولاتختصوا یوم الجمعة بصیام من بین الایام ان یکون فی صوم یصومہ احدکم۔ (صحیح مسلم:۱۱۴۴)

ترجمہ:۔جمعہ کی رات کو دوسری راتوں سے نماز اور قیام کے لئے خاص نہ کرو اور جمعہ کے دن کو دوسرے دنوں سے روزہ کے لئے خاص نہ کرو‘ لیکن اگر کوئی شخص روزے رکھتا ہو اور جمعہ کا دن آجائے تو الگ بات ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ کسی نیک عمل کو بھی ایسے اوقات کے ساتھ خاص کرنا بدعت ہے، جن کے ساتھ حضورا نے خاص نہ کیا ہو۔


مسؤلہ صورت میں اوقات نماز کے بعد کتابی تعلیم اصلاح معاشرہ کے لئے بے حد مفید ہے اور اس میں بھی امت کے لئے جو زیادہ مفید ترین کتاب ہو اسے تعلیم میں استعمال کرنا مستحسن ہے البتہ جو لوگ کسی ایک کتاب کو متعین کر دینے کے بعد اسی کتاب کے پڑھنے کو ضروری سمجھتے ہیں اسی طرح جو لوگ تعلیم یعنی روزانہ کتاب پڑھنے کو ضروری سمجھتے ہیں اور اسے واجب اور فرض کا درجہ دے دیتے ہیں اور ایک دن بھی کتاب پڑھنے کی غیر حاضری کو برا سمجھتے ہیں۔ یہ شرعی نقطۂ نظر سے درست نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: