جمعرات، 3 فروری، 2022

ترکہ میں حمل کا حصہ کیسے متعین کریں

 سوال

مورث کی ورثہ کو وارثین کی درمیان تقسیم کرنے کے وقت اپنی زوجہ کی پیٹ میں  ایک بچہ ہے اسکو وارثین میی شامل کرے یا نہ کرے اگر شامل کریں تو کیا کہ کر شامل کرے کیا وہ مرد یا عورت توجرو مع الدلائل۔ اللہ آپ کو آخرت میں مالا مال عطاکرے۔

سائل: ربیع العالم بن سید قاسم مو اطن عبد اللہ پارہ علا قہ راسیدنغ اراکانی۔


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


مورث کے وارثین میں حمل بھی شامل ہو تو مورث کے ورثہ کو وارثین کے درمیان تقسیم کی فقہاء نے دوصورتیں بیان فرمائی ہے۔


(١) انھیں ترکہ تقسیم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حمل کی صورت حال مشکوک ہے ہوسکتاہے کہ مرد پیدا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عورت ہو، جس کی بنا پر حمل اور اس کے ساتھ شریک ورثاء کے حصوں کی مقدار میں فرق اور اختلاف ممکن ہے لہٰذا وہ وضع حمل کے بعد کی صورت حال کے واضح ہونے کا انتظار کریں۔


(٢) ورثاء تقسیم ترکہ کا مطالبہ کرنے کے مجاز ہیں انھیں وضع حمل کے انتظار کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس میں ان کا نقصان ہے۔ ممکن ہے وہ ایسے محتاج اور فقیر ہوں جن کے لیے وضع حمل کی طویل مدت کا انتظار کرنا مشکل ہو۔


پہلی صورت ہے یعنی ظہور حمل کے بعد تقسیم ترکہ ہے تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے کیوں کہ جب حمل ظاہر ہوجائے گا تو تقسیم ترکہ کا مسئلہ آسان ہوجائے گا۔


اور اگر دوسری صورت ہو یعنی ورثاء اس کی پیدائش سے قبل ہی ترکہ کی تقسیم کا مطالبہ کریں، تو اس صورت میں دو مسئلے بنائے جائیں گے، ایک میں حمل کو مذکر اور دوسرے میں مونث فرض کیا جائے گا، پھر حمل کے علاوہ باقی ورثاء کو دونوں صورتوں میں سے جس صورت میں کم ملتا ہو، وہ انہیں دے دیا جائے گا، اور باقی حصہ حمل کے لئے محفوظ رکھ دیا جائے گا۔


اب اگر حمل مذکر پیدا ہو، تو مذکر والی صورت پر عمل کریں گے، اور اگر مونث پیدا ہو، تو مونث والی صورت پر عمل کریں گے، اور جن ورثاء کو کم دیا گیا تھا، ان کو مکمل حصہ دے دیا جائے گا، اور اگر حمل میت پیدا ہو، تو حمل کا رکھا ہوا مال بقیہ ورثاء میں حسبِ استحقاق تقسیم کردیا جائے گا۔


سراجی میں ہے

فإن كان الحمل من الميت، وجاءت بالولد لتمام أكثر مدة الحمل، أو أقل منها، ولم تكن أقرت بانقضاء العدة يرث ويورث عنه، وإن بالولد لأكثر من أكثر مدة الحمل لا يرث ولا يورث. (السراجية، ٨٥ ديوبند).


اسی طرح البحر الرائق میں ہے۔

ووقف للابن حظ ابن أي إذا ترك الميت امرأته حاملا أو غيرها ممن يرثه ولدها وقف للحمل نصيب ابن واحد.... ثم يقسم الباقي على الأولاد ويترك نصيب الحمل منه على الاختلاف الذي ذكرنا، وإن لم يكن في الورثة ذكر والحمل من الميت يعطى كل وارث نصيبه على تقدير أن الحمل ذكر أو أنثى أيهما أقل، وإن كان على أحد التقديرين يرث دون الآخر فلا يعطى شيئا وكذا إذا كان فيهم من لا يرث على تقدير ولادته حيا وعلى تقدير ولادته ميتا يرث فلا يعطى شيئا للاحتمال، وإن كان نصيبه على أحد التقديرين أكثر يعطى الأقل للتيقن به ويوقف الباقي۔ (البحرالرائق ٩/٣٩١)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: