ہفتہ، 26 فروری، 2022

موبائل فون ٹیبلیٹ اور کمپیوٹر کی اسکرین پر قرآن کریم کو چھونا سوال نمبر ١٨٣

 سوال

حضرت مفتی صاحب

ایک مسئلہ دریافت کرناہے وہ یہ کہ موبائل فون ٹیبلیٹ اور کمپیوٹر سے قرآن پڑھنے کی صورت میں سکرین کے اوپر ظاہر ہونے والے قرآنی نقوش کو بلا وضوء چھونا جائز ہے یا نہیں، کوئی جائز لکھتا ہے اور کوئی حرام لکھتا ہے کسی سے دریافت کرنے پر وہ یہ کہتے ہیں کہ بہتر نہیں ہے حضرت مفتی صاحب آپ کے اکثر فتاوی میں نے بالتفصیل اور مکمل وضاحت سے لکھے ہوئے پڑھے ہیں اس لئے آپ سے اس مسئلہ پر بھی تحقیقی جواب کا امیدوار ہوں ہم دعاء کرتے ہیں کہ اللہ آپ کی سعی حمیدہ کو قبول فرمائیں۔ آپ مدلل و مفصل جواب تحریر فرمائیں۔

سائل:مولوی مختار احمد ایم پی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ


سب سے پہلے یہ بات سمجھئے کہ قرآن کریم کو بلاوضو چھونا یہ حرام ہے، یہی جمہور علماء کا مسلک ہے، کہ انہوں نے قرآن کریم کو بلا طہارت مس کرنے کو ناجائز قرار دیا ہے، لہذا قرآن کریم کو اگر ہاتھ میں لے کر پڑھنا ہے تو اس کے لیے باوضو ہونا ضروری ہے، بغیر وضو کے قرآنِ کریم کو چھونا جائز نہیں ہے، اور اس کی حرمت کی بنیاد احادیث مبارکہ ہیں۔


امام مالک نے موطأ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مکتوبِ گرامی نقل کیا ہے جو آپ نے حضرت عمرو بن حزم کو لکھا تھا ، جس میں ایک جملہ یہ بھی ہے ’’لایمس القران إلا طاهر‘‘ یعنی قرآن کو وہ شخص نہ چھوئے جو طاہر نہ ہو، اور ابن کثیر نے بھی اللہ کے رسول کے مکتوبِ گرامی کو نقل کیا ہے جو آپ نے حضرت عمرو بن حزم کو لکھا تھا


موطأ لإمام مالک میں ہے۔

أخرج مالک عن عبد اللّٰہ بن أبي بکر بن حزم أن في الکتاب الذي کتبہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لعمرو بن حزم أن لا یمس القرآن إلا طاہرا۔ (الموطأ لإمام مالک، کتاب القرآن، باب الأمر بالوضوء لمن مس القرآن ۱۵۳ رقم: ۱)


اس کے مزید دلائل دیکھنے کے لئے میرے اس فتوے کی لنک پر کلک فرمائیں۔

https://muftiasifgodharvi.blogspot.com/2022/02/blog-post_19.html


یہ مسئلہ تو قرآن کریم کو ڈایریکٹ ہاتھ سے چھونے کے سلسلے میں ہے اب رہی بات موبائل ٹیبلیٹ اور کمپیوٹر کی اسکرین پر قرآن کریم کو چھونے کی تو سب سے پہلے یہ سمجھئے کہ اس کی تین صورتیں رہے گی ایک قرآن کریم موبائل ٹیبلیٹ اور کمپیوٹر میں ہے لیکن یہ تینوں بند ہے دوسرے نمبر پر یہ تینوں کھلے ہوئے ہے لیکن قرآن کریم کھلا ہوا نہیں ہے، تیسرے نمبر پر یہ تینوں کھلے ہوئے ہے اور قرآن کریم بھی کھلا ہوا ہے۔

اتنی بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ قرآن کریم موبائل ٹیبلیٹ اور کمپیوٹر میں موجود ہو اور وہ بند ہو تو اس کا چھونا جائز ہے اور اس بات پر بھی سب متفق ہے کہ قرآن کریم موبائل ٹیبلیٹ اور کمپیوٹر میں جب قرآن کھلا ہوا ہو تو اس کے دوسرے پارٹس کو بھی چھونا جائز ہے یعنی موبائل اور ٹیبلیٹ ہے تو اس کا کور، یا دوسرے اجزاء اور کمپیوٹر ہے تو اس کا کی بورڈ وغیرہ۔

کیوں کہ جب قرآن کریم موبائل یا میموری کارڈ کے اندر ہو یعنی اس کو اسکرین پر کھولا نہ گیا ہو، تو اس وقت چوں کہ قرآن کریم حروف ونقوش کی صورت میں موجود نہیں ہے اس لیئے اس کو ہاتھ لگانے کے لیئے باوضو ہونا ضروری نہیں۔


اختلاف اس بات پر ہے کہ قرآن کریم جب موبائل ٹیبلیٹ اور کمپیوٹر پر کھلا ہوا ہو تو کیا اس کو یعنی اس اسکرین کو اور اس پر کھلے ہوئے قرآن کریم کو بلا وضوء چھونا جائز ہے یا نہیں، اس سلسلہ میں ارباب فتاویٰ کی جانب سے تین اقوال ملتے ہیں۔


(١) موبائل ٹیبلیٹ اور کمپیوٹر کی پوری اسکرین کو قرآن کھلا ہونے کی صورت میں چھونا جائز نہیں ہے، ان کے دلائل وہی ہے جو قرآن کریم کو بلاوضو چھونے کے بارے میں اوپر گزرے۔

وہ لوگ یہ فرماتے ہیں کہ جب موبائل اسکرین پر قرآنِ کریم کی آیات واضح طور پر نظر آرہی ہیں، تو وہ حقیقت میں قرآن ہی کے حکم میں ہے، اور یہ شیشہ بظاہر حائل نظر آتا ہے، لیکن وہ حقیقت میں منفصل نہیں ہے،


(2) جب قرآن موبائل ٹیبلیٹ اور کمپیوٹر پر کھلا ہو تو اس صورت میں صرف جس اسکرین پر قرآن کریم کے نقوش ظاہر ہو رہے ہیں اس کا چھونا جائز نہیں، اس کے علاوہ اسکرین کے ارد گرد کی جگہ اور  دیگر پارٹس کو بلا وضو چھونا جائز ہے۔


وہ حضرات یہ فرماتے ہیں کہ موبائل یا میموری کارڈ میں جو نقوش ہے وہ قرآن کریم کے حکم میں نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو موبائل کے دیگر پارٹس غلاف منفصل کے حکم میں ہوں گے۔ اور جب موبائل یا میموری کارڈ کے حافظے میں موجود قرآن کریم کو اسکرین پر کھول لیا جائے تو اس وقت چوں کہ اسکرین پر موجود نقوش قرآن کریم کے الفاظ پر دلالت کرتے ہیں ، اس وقت اسکرین پر ہاتھ لگانے کے لیئے وضو ہونا ضروری ہے اور اس صورت میں چوں کہ قرآن کریم کا صرف وہی حصہ حروف کی شکل میں ہے جو اسکرین پر نظر آرہا ہے، لہٰذا اسکرین کو ہاتھ لگانا طہارت کے بغیر جائز نہ ہوگا اور اسکرین کے علاوہ موبائل کے بقیہ حصوں کو ہاتھ لگانا جائز ہو گا، اکثر ارباب فتاوی نے اسی قول پر فتوی دیا ہے۔


(3) تیسرا قول یہ ہے کہ اس اسکرین کو بھی ہاتھ لگا سکتے ہیں اور دیگر پارٹس کو بھی۔

وہ حضرات اس کو تین چیزوں پر قیاس کرتے ہیں ایک یہ کہ قرآنی آیات کسی کاغذ پر لکھی ہوئی ہوں اور وہ کاغذ کسی شیشے کے باکس میں پیک ہو، پھر باہر سے اس شیشے کو چُھوا جائے تو اس میں شرعاً کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا کیونکہ یہ غلافِ منفصل کی طرح ہے کہ یہ شیشہ اس قرآنی نقوش سے جُدا ہے، اسی طرح موبائل یا کمپیوٹر اسکرین پر نظر آنے والی قرآنی آیات کو بھی بلا طہارت چھونا جائز ہے، کیوںکہ یہ شیشہ بھی اس قرآنی نقوش سے جُدا ہے، جہاں آیات کے نقوش بن رہے ہیں۔

دوسرے نمبر پر اسے مصحفِ قرآنی کے غلافِ منفصل پر قیاس کرتے ہیں یعنی ایسا غلاف جو قرآنِ کریم کے ساتھ لگا ہوا نہ ہو بلکہ اس سے جُدا ہو تو اس کو بغیر طہارت کے  اُٹھانا اور چُھونا جائز ہے، اسی طرح یہ بھی غلاف منفصل کی طرح ہے، اس کا بھی بلا طہارت چھونا جائز ہوگا۔

تیسرے نمبر پر بند صندوق میں قرآن ہونے کی صورت میں جس طرح حسب تصریح فقہائے کرام بغیر طہارت کے  اُٹھانا اور چُھونا جائز ہے، اسی طرح یہ بھی بند صندوق کی طرح ہے، اس کا بھی بلا طہارت چھونا جائز ہوگا۔

اور ان سب کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ موبائل یا کمپیوٹر کی سکرین پر جو آیات نظر آتی ہیں، وہ سافٹ وئیر ہیں یعنی ایسے نقوش ہیں، جنہیں چُھوا نہیں جاسکتا۔ اسی طرح ماہرین کی تحقیق کے مطابق یہ نقوش کمپیوٹر یا موبائل کے شیشے پر نہیں بنتے بلکہ ریم پر بنتے ہیں اور شیشے سے نظر آتے ہیں، لہذا یہ نظرآنے والے نقوش ظاہری قرآن کریم کے نقوش کی طرح نہیں ہوسکتے یعنی ظاہر میں جس طرح اوراق میں مکتوب قرآن کا حکم ہے وہ اس کا نہیں ہوسکتا۔

اسی طرح اس میں جو نقوش نظر آتے ہیں ان کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں باقاعدہ ایسے حروف موجود نہیں ہوتے جن کے لئے ثبات و دوام اور اپنا کوئی وجود ہو، بلکہ درحقیقت یہ روشنی کی شعاعیں ہیں جو مسلسل سکرین پر پڑتی ہیں اس کو قرآن نہیں کہیں گے اور نہ اس پر قرآن کریم والے احکام جاری ہونگے ، لہٰذا آیاتِ قرآنی اسکرین پر نظر آرہی ہوں تو بلا وضو اسکرین کو ہاتھ لگانا فی نفسہ جائز ہے بالخصوص جبکہ درمیان میں اسکرین بھی حائل ہوتی ہے، تاہم اس حالت میں ادب و احتیاط کے تقاضے کے مطابق باوضو اسکرین پر ہاتھ لگانے کے بہتر اور افضل ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔

یوٹیوب میں علماء کے فتاویٰ بیانات میں زیادہ تر تیسری صورت کو ترجیح دی گئی ہے لیکن اختلافات علماء کی بناء پر قرآن چاہے ڈایریکٹ چھوئے یا موبائل ٹیبلیٹ اور کمپیوٹر کی اسکرین پر چھوئے وضوء کرلینا بہتر ہے۔

اس سلسلہ میں تین ویڈیوز پیش خدمت ہے ملاحظہ فرمائیں۔

مفتی سعید احمد پالنپوری موبائل اسکرین پر قرآن کو بلا وضو چھونے کے بارے میں فرماتے ہیں۔

https://youtu.be/du6STna8_Hk


مولانا طارق مسعود موبائل اسکرین پر قرآن کو بلا وضو چھونے کے بارے میں فرماتے ہیں۔

https://youtu.be/WwHJWgCq2aw


https://youtu.be/35OiWRiAUWg


اسی طرح مفتی تقی عثمانی صاحب کے بیان سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے۔

https://youtu.be/v8f2lG0c3Vs


مسؤلہ صورت میں مذکورہ مفصل تفصیل کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ  قول اول احوط قول ثانی اوسط اورقول ثالث جائز غیر اولی ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: