جمعہ، 11 فروری، 2022

نکاح سے پہلے طلاق کو نکاح پر معلق کرنے کا شرعی حکم

 سوال

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

اور خیریت سے ہیں آپ، ایک مسئلہ معلوم کرنا تھا،

(١) مسئلہ یہ ہے اگر کوئی شخص کسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں  اور نکاح سے پہلے ہی یہ شخص یہ الفاظ اس لڑکی کی طرف نسبت کر کے کہہ دے کہ  نکاح کے بعد تجھےطلاق۔ تو کیا حکم ہوگا۔۔


(٢) نیز کچھ دن بعد اس شخص نے یہ بھی اپنی زبان سے کہا کہ جس سے میری شادی ہو اسے طلاق اور یہ الفاظ کہیں ہوں کہ وہ مجھ پر حرام۔۔


(٣) پوچھنا یہ ہے کہ اگر یہ شخص اس لڑکی سے شادی کریں جس کی طرف اس نے نسبت کرکے طلاق دی ہو تو اس لڑکی پر کتنی طلاق واقع ہوگی۔


(٤) کیا اس شخص کی  شادی  اس لڑکی سے ہو سکتی ہے یا نہیں۔۔


پوری تفصیل کے ساتھ سوال میں جو بات تھی وہ لکھ دی گئی ہے، آپ سے درخواست ہے۔۔ مدلل و مکمل جواب عنایت فرماٸیں؟

سائل: عبدالصمد ہریدواری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ


(١) وہ طلاق جو کسی شرط کے ساتھ مشروط ہو، اس کو "طلاق معلق" کہا جاتا ہے، اس کا حکم یہ ہے کہ جب وہ شرط پائی جائے گی، تو اس کے ساتھ مشروط طلاق واقع ہو جائے گی۔

طلاق کو اس شرط کے ساتھ معلق کرنا کہ نکاح کے بعد تجھے طلاق، تو جس وقت اس سے نکاح ہوگا اس کو ایک طلاق واقع ہوجائے گی۔


فتاویٰ عالمگیری اور ہدایہ میں ہے۔

وإذا أضافہ إلی شرط وقع عقیب الشرط مثل أن یقول لامرأتہ إن دخلت الدار فأنت طالق (ہدایة: ۲/٣٤٥  ہندیہ: ۱/٤٢٠ زکریا)


فتاویٰ عالمگیری میں ہے۔

وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته إن دخلت الدار فأنت طالق۔(الفتاوى الهندية،كتاب الطلاق،الباب الرابع في الطلاق بالشرط، ١/٤٨٨)

صورت مسئولہ میں نکاح ہوتے ہی طلاق واقع ہوجائے گی۔


(٢) سائل کے الفاظ ( کہ جس عورت سے میں شادی کروں اسے طلاق) میں چونکہ طلاق کو شادی کی طرف منسوب کرکے معلق کیا گیا ہے، اس طرح کی تعلیق احناف کے یہاں درست ہے، اس لیئے  سائل کے نکاح کرتے ہی شرط پائے جانے کی وجہ سے طلاق واقع ہوجائے گی، سائل کے لیئے اب حکم یہ ہے کہ نیا مہر مقرر کرکے دو گواہوں کی موجودگی میں تجدید نکاح کرے۔


شامی میں ہے۔

تنحل أي تبطل الیمین بطلاق التعلیق أو وجد الشرط مرة (درمختار) حتی لو قال أي امرأة أتزوجہا فہي طالق لا یقع إلا علی امرأة واحدة. (الدر المختار مع الشامي/ باب التعلیق، مطلب ما یکون في حکم الشرط ٤/٦٠٥  زکریا)


المحيط البرهاني میں ہے۔

ولو قال: كل امرأة أتزوجها فهي طالق فتزوج نسوة طلقن، ولو تزوج امرأة واحدة مرارا لم تطلق إلا مرة واحدة. (المحيط البرهاني: ٣/٣٦٥)


صورت مسئولہ میں پہلی مرتبہ جس لڑکی سے نکاح کرے گا، اس پر نکاح ہوتے ہی طلاق پڑجائیں گی، اور وہ اس کے لئے حلال نہ رہے گی لیکن اس کے بعد اگر وہ دوسرا نکاح کسی اور لڑکی سے کرے گا، تو اس پر کوئی طلاق واقع نہ ہوگی کیونکہ مذکورہ تعلیق پہلےنکاح وطلاق سے ختم ہوچکی ہے۔


(٣) نکاح سے پہلے اس شخص نے یہ الفاظ اس لڑکی کی طرف نسبت کرکے کہے تھے کہ  نکاح کے بعد تجھےطلاق تو اس کا حکم یہ ہے کہ پہلی بار نکاح کرتے ہی طلاق واقع ہوجائے گی اس کے بعد دوبارہ مہر متعین کرکے اسی مجلس میں نکاح کرلے نکاح درست ہوجائے گا۔


فتاوی ہندیہ میں ہے:

إذا طلق الرجل امرأته ثلاثًا قبل الدخول بها وقعن عليها، فإن فرق الطلاق بانت بالأولى، ولم تقع الثانية والثالثة۔ (الفصل الرابع في الطلاق قبل الدخول، ١/٣٧٣ ط:مكتبه رشيديه)


(٤) جب اس سے پہلی بار نکاح کیا تو طلاق واقع ہوگئی اور شرط بھی پوری ہوگئی اب اس سے دوبارہ مہر متعین کر کے نکاح کرسکتاہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا


کوئی تبصرے نہیں: