بدھ، 9 فروری، 2022

الیکٹرانک آلات سے حشرات کو مارنے کا حکم

سوال 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

Mosquito Bat سے مچھر وغیرہ مارنا کیسا ہے ؟..اسکے بارے میں کیا تحقیق ہے ؟.

کیا یہ اس حدیث کے تحت داخل ہے : إن النَّار لا يُعَذِّبُ بها إلا الله : بینوا توجروا ۔۔

سائل: مولانا محمد ابن رحمۃ اللہ مجادری پالنپوری 


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


تکلیف دینے والے جانوروں کو مارنے اورقتل کرنے کی شرعاً اجازت ہے اور ان کے نقصان کو دفع کرنے کے اسباب اختیار کرنا بھی جائز ہے، تاہم مارنے کی کوئی ایسی صورت اختیار کی جائے  جس سے ان کی جان جلدی نکل جائے اور  تکلیف بھی نہ پہنچے۔


البتہ قتل کے لیے ابتداءً ایسی چیزکا استعمال کرنا جس میں جلانا پایا جائے مکروہ ہے؛ اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ کارگر نہ ہو تو بمجبوری جلانے کی گنجائش ہوگی۔


صورت مسئولہ میں آج کل مچھروں اور مکھیوں کو مارنے کا  جو برقی آلہ استعمال ہوتا ہے اس آلےمیں بجلی ہوتی ہے، آگ نہیں ہوتی، جل کر نہیں‌ بلکہ بجلی کے چھٹکے سے مرتا ہے اِسے آگ میں‌ جلانا شمار نہیں‌ کیا جا سکتا۔ حدیث میں آگ سے جلا کر کسی چیز کو سزا دینے یا عذاب دینے کی ممانعت وارد ہوئی ہے، اس لیے  ایسے  آلے کے استعمال کی اجازت ہے،  اس سے لگ کر مرنے والے جاندار جل کر نہیں‌ بلکہ برقی جھٹکے سے مرتے ہیں۔


فتاوی شامی میں ہے:

وحرقہم ما نصہ لکن جواز التحریق والتفریق مقید کما في الشرح السِّیر بما إذا لم یتمکنوا من الظفر بہم بدون ذلک بلا مشقة عظیمة فإن تمکنوا فلا یجوز کما في الدر المختار․(شامی ٦/٢١٠)

وأيضاً

وجاز قتل ما يضر منها ككلب عقور وهرة تضر ويذبحها أي الهرة ذبحا ولا يضر بها لأنه لا يفيد، ولا يحرقها وفي المبتغى يكره إحراق جراد وقمل وعقرب.قوله: وهرة تضر كما إذا كانت تأكل الحمام والدجاج زيلعي قوله: ويذبحها الظاهر أن الكلب مثلها تأمل قوله: يكره إحراق جراد أي تحريمًا ومثل القمل البرغوث ومثل العقرب الحية۔ (شامی  ١٠/٤٨٢ ط: زکریا)


عرف الشذی میں ہے۔

وأما مسألة الإحراق فمأخذ من قال بعدم الجواز رواية أبي هريرة قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «إن وجدتم فلاناً وفلاناً ـ لرجلين من قريش ـ فأحرقوهما بالنار»، ثم قال: إلخ، وأصل الواقعة أنه لما خلص أبا العاص وأخذ منه الوعد بأنه يرسل زينب إلى المدينة فأرسل صلى الله عليه وسلم زيد بن حارثة لقتل جبار بن أسود كان آذى زينب، فأرسل النبي صلى الله عليه وسلم أصحابه في أثره؛ ليحرقوه، ثم منع عن الإحراق، وزعم بعض أنه اطلع على الخطأ في حكم الإحراق، أقول: لا داعي إلى هذا، بل هذا إمهال في دار الدنيا ومسامحة؛ ليؤخذ في الآخرة أشدّ الأخذ، ولايدلّ على منع الإحراق، وثبت الإحراق عن الصحابة أيضاً، وفي الدر المختار ص (334): جواز إحراق اللوطي، وروي عن أحمد بن حنبل جواز إحراق الحيوانات المؤذية من القمل والزنابير وغيرها، وبه أخذ عنه عدم البد منه۔ (العرف الشذی شرح ترمذی کتاب الحدود باب ما جاء فی المرتد ط: المکتبۃ العلمیہ ٤/٣٣) فقط والله أعلم


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: