سوال
السلام علیکم جناب مفتی صاحب ایک زمین ساروجنیک ہیں تو اس پر مسجد بنا سکتے ہیں اور کچھہ لوگ کا کہنا ہے کہ ساروجنیک زمین جہاں ہوتی ہے وہاں نماز نہیں ہوتی تو حضرت اس کیا مسلہ ہے۔
سائل: عبدللطیف
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
مسجد کی تعمیر ایسی جگہ کرنی چاہیے جسے مالک نے اپنی خوشی سے مسجد بنانے کے لیے دی ہو یا مسلمانوں نے اسے خریدی ہو، کیونکہ مسجد کی جگہ خالص اللہ کے لئے وقف جگہ ہوتی ہے اور جگہ وقف کرنے کی ایک شرط اس جگہ کا مالک ہونا ہے، غیر مملوک یا مشتبہ زمین پر مسجد کی تعمیر درست نہیں، اور مسجد بنانے سے وہ مسجد؛ شرعی مسجد نہیں کہلائے گی اس لیے کہ کسی زمین کو مسجد کی تعمیر کےلئے وقف کرناہو تو اس جگہ کا مالک ہونا ضروری ہے، دوسرے کی زمین پر مسجد تعمیر کرنا شرعا جائز نہیں ہے۔
ساروجنیک اور سرکاری زمینوں میں مالکانہ قبضہ حکومت کا ہوتا ہے اس لئے حکومت سے باقاعدہ مسجد کے نام زمین الاٹ کراکے سرکاری زمین پر مسجد بنائی جائے۔
سرکاری زمین پر بغیر سرکار کی اجازت کے مسجد تعمیر کرنا شرعی، قانونی اور اخلاقی طور پر درست نہیں ہے۔ کیونکہ سرکاری زمین پر حکومت کی اجازت کے بغیر مسجد بنانے سے زمین سرکار کی ملکیت میں ہی رہے گی اور سرکار کو اس میں تصرف کرنے اور وہاں سے مسجد ہٹانے کا اختیار باقی رہے گا۔
اور جہاں سرکاری زمین پر ان کی اِجازت کے بغیر مسجد تعمیر کرلی گئی ہے وہ مسجدِ شرعی کے حکم میں نہ ہوگی، اور وہاں نماز پڑھنے سے مسجدِ شرعی کا ثواب نہ ملے گا، البتہ نماز ہوجائے گی، علامہ شامی نے اس طرف اشارہ کرتے ہوئے جائز قرار دیا ہے (وفی شرح المنیہ للحلبی بنی مسجدا فی أرض غصب لا بأس بالصلاۃ فیہ ٢/٤٤) لہذا مسجد کی تعمیر صرف اس جگہ پر کی جائے جو مسجد کے لیے خریدی گئی ہے، یا اسے کسی نے وقف کیا ہے ۔
صورت مسئولہ میں ساروجنیک اور سرکاری زمینوں میں سرکار کی اجازت سے مسجد تعمیر کرنی چاہیے، سرکاری زمین میں بغیر سرکار کی اجازت سے مسجد تعمیر کرنا صحیح نہیں، اگر کسی جگہ سرکاری زمین پر مسجد تعمیر کرلی گئی ہے تو کوشش کرکے حکومت سے اجازت لے لینی چاہیے تاکہ وہ شرعی مسجد بن جائے۔
غنیة المستملي میں ہے۔
وذکر فی الواقعات: رجل بنی مسجدًا علی سور المدینة لا ینبغي أن یصلي فیہ لأنہ حق العامة فلم یخلص للہ تعالی کالمبني في أرض مغصوبة․․․ ولو فعلہ بإذن الإمام ینبغي أن یجوز فیما لا ضرر فیہ یعني: في مسجد السور لأنہ نائبہم (غنیة المستملي ص ٤۱۵،مطبوعہ مکتبہ اشرفیہ دیوبند)
شامی میں ہے۔
قلت وہو کذٰلک، فإن شرط الوقف التأبید۔ والأرض إذا کانت ملکًا لغیرہ، فللمالک استردادہا، وأمرہ بنقض البناء۔ وکذا لو کانت ملکًا لہ؛ فإنّ لورثتہ بعدہ ذٰلک، فلا یکون الوقف مؤبدًا ۔ (رد المحتار، کتاب الوقف / مطلب: مناظرۃ ابن الشحنۃ مع شیخہ العلامۃ قاسم في وقف البناء ٢/٥٩١ زکریا)
شامی میں ہے۔
وفي الواقعات: بنی مسجدًا في سور المدینۃ، لا ینبغي أن یصلی فیہ؛ لأنہ حق العامۃ، فلم یخلص للّٰہ تعالیٰ کالمبنی في أرض مغصوبۃ … فالصلاۃ فیہا مکروہۃ تحریمًا في قول، وغیر صحیحۃ لہ في قول آخر ۔ (رد المحتار، کتاب الصلاۃ /مطلب في الصلاۃ في الأرض المغصوبۃ، مکتبۃ زکریا دیوبند ۲/٤٥، ) واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں