سوال
السلام عليكم و رحمة الله بركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگر بغیر آواز اور بدبو کے ہوا خارج ہوی تو اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے یا باقی رہتا ہے؟
سائل: عبداللہ
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
نواقض وضو میں سے ایک ریح کا خارج ہونا ہے، کسی کی ریح خارج ہو جائے اور اسے اس کا یقین ہو جائے تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا، ریح میں آواز کے ساتھ خارج ہونی کی یا بلا آواز کے خارج ہونے کی کوئی اور بدبو ہو یا نہ ہونے کی کوئی قید نہیں ہے، اور جب تک ہوا خارج ہونے کا یقین نہ ہوجائے اس وقت تک وضو برقرار رہتا ہے، اور ہوا خارج ہونے کا یقین عمومًا یا تو آواز سے ہوتاہے یا بدبو سے۔
حدیث میں آواز اور بو محسوس ہونے کا جو ذکر ہے اس سے مراد خروج ریح پر یقین حاصل ہونا ہے، اس سے وضو کا ٹوٹنا آواز یا بو کے ساتھ مشروط کرنا مراد نہیں ہے۔ مشہور شراح حدیث مثلاً حافظ ابن حجر رحمہ اللہ، علامہ نووی رحمہ اللہ اور علامہ خطابی وغیرہ نے اس کی تصریح کی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیں: فتح الملہم: ۱/۴۹۱، ط: اشرفی، دیوبند۔
مر قاۃ شرح مشکوۃ میں ہے
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله ﷺَ: (لا وضوء إلّا من صوت أو ریح)
(عن أبي هریرة قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: إذا وجد أحدکم في بطنه شیئًا فأشکل علیه أخرج منه شيء أم لا، فلایخرجنّ من المسجد حتی یسمع صوتًا أو یجد ریحًا)، و هذا مجاز عن تیقن الحدیث؛ لأنّهما سبب العلم بذلك". (مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح، ٢/٣٠ ط:مکتبة رشیدیة)
صورت مسئولہ میں بغیر آواز اور بدبو کے ہوا خارج ہوئی تو اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے کیوں کہ مقصود ہوا نکلنا ہے، نہ کہ آواز یا بدبو، اگر آواز کے بغیر بھی ہوا نکل جائے اور آدمی کو یقین ہو تو وضو ٹوٹ جائے گا، آواز کا ذکر حدیث میں یقین کے لیے ہے۔ فقط والله أعلم۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں