سوال
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں ایک جماعت ہونے کے بعد دوسری جماعت کرسکتے ہے کیا؟ واضح ہوکہ جو لوگ دوسری جماعت کررہے وہ اسی محلہ کے ہے اور انکا یہ معاملہ ہمیشہ کا نہیں ہے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مسافر کے علاوہ بستی والے دوسری جماعت نہیں کرسکتے برائے مہربانی اس مسئلے میں رہنمائی فرمائیں
سائل: محمد صادق رشیدی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
جماعت ثانیہ کے سلسلہ میں سب سے پہلے یہ سمجھئے کہ جس مسجد میں پنج وقتہ جماعت اہتمام وانتظام سے ہوتی ہو۔ امام، مؤذن مقرر ہوں اور نمازی معلوم ہوں، نیز جماعت کے اوقات بھی متعین ہوں اور وہاں پنج وقتہ نماز باجماعت ہوتی ہو، اس میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جماعت ثانیہ کرانا مکروہِ تحریمی ہے۔
البتہ مسجد کی جو شرعی حدود ہے اس کے خارجی حصے میں جماعت کرنے کی گنجائش ہے، ایسی صورت میں اقامت بھی کہی جائے گی یعنی خارج مسجد اتفاقاً جماعت ثانیہ کی صورت پیش آجائے تو اقامت کہنا بھی مستحب ہوگا۔
ہاں ایسی مساجد جو راستوں پر بنی ہوتی ہیں اور ان کے لیے امام و مؤذن مقرر نہیں ہوتا، جہاں مسافر آکر اپنی اپنی جماعت کراتے ہیں اس قسم کی مساجد میں جماعت ثانیہ جائز ہے۔
صورت مسئولہ میں اگر جماعت ثانیہ مسجد میں کی جارہی ہے، اور اس مسجد کے امام اور مصلیان متعین ہیں، تو وہاں دوسری مرتبہ جماعت سے نماز پڑھنا مکروہ ہے، چاہے وہ لوگ اسی محلہ کے ہو یا کسی اور محلے کے ہو البتہ اگر مسجد کی شرعی حد کو چھوڑ کر کسی اور جگہ میں باجماعت متعدد مرتبہ پڑھی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن بلا ضرورت اس طرح نہ کریں اس سے جماعت کی اہمیت ختم ہو جائے گی۔
فتاوی شامی میں ہے:
يكره تكرار الجماعة في مسجد محلة بأذان وإقامة ، إلا إذا صلى بهما فيه أو لا غير أهله أو أهله لكن بمخافتة الاذان ، ولو كرر أهله بدونهما أو كان مسجد طريق جاز إجماعا ، كما في مسجد ليس له إمام ولا مؤذن ويصلي الناس فيه فوجا فوجا ، فإن الأفضل أن يصلي كل فريق بأذان وإقامة على حدة كما في أمالي قاضيخان ا ه . ونحوه في الدرر . والمرا بمسجد المحلة : ما له إمام وجماعة معلومون كما في الدرر وغيرها . قال في المنبع : والتقييد بالمسجد المختص بالمحلة احتراز من الشارع۔(شامی مطلب فی تکرار الجماعۃ فی المسجد، ٢/٢٨٨)
اسی طرح دوسری جگہ ہے۔
(وتكرار الجماعة) لما روى عبد الرحمن بن أبي بكر عن أبيه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج من بيته ليصلح بين الأنصار فرجع وقد صلى في المسجد بجماعة، فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم في منزل بعض أهله فجمع أهله فصلى بهم جماعة ولو لم يكره تكرار الجماعة في المسجد لصلى فيه. وروي عن أنس أن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم كانوا إذا فاتتهم الجماعة في المسجد صلوا في المسجد فرادى ولان التكرار يؤدي إلى تقليل الجماعة، لان الناس إذا علموا أنهم تفوتهم الجماعة يتعجلون فتكثر وإلا تأخروا ا ه بدائع. وحينئذ فلو دخل جماعة المسجد بعدما صلى أهله فيه فإنهم يصلون وحدانا، وهو ظاهر الرواية. ظهيرية. وفي آخر شرح المنية: وعن أبي حنيفة لو كانت الجماعة أكثر من ثلاثة يكره التكرار، وإلا فلا. وعن أبي يوسف: إذا لم تكن على الهيئة الأولى لا تكره، وإلا تكره وهو الصحيح، وبالعدول عن المحراب تختلف الهيئة، كذا في البزازية ا ه. وفي التاترخانية عن الولوالجية: وبه نأخذ، وسيأتي في باب الإمامة إن شاء الله تعالى لهذه المسألة زيادة كلام. قوله (الدرالمختارمع رد المحتار ٢/٦٤)
اعلاء السنن میں ہے۔
عن عبد الرحمن بن المجبر قال: دخلت مع سالم بن عبد اللّٰه مسجد الجمعة، وقد فرغوا من الصلاة، فقالوا: ألا تجمع الصلاة؟ فقال سالم: لا تجمع صلاة واحدة في مسجد واحد مرتین۔ قال ابن وهب: وأخبرني رجال من أهل العلم عن ابن شهاب ویحییٰ بن سعید وربیعة واللیث مثله، کذا في المدونة الکبریٰ لمالک ورجاله کلهم ثقات. (إعلاء السنن ٤/٢٦٢ رقم: ١٢٦٠ دار الکتب العلمیة بیروت)
بدائع الصنائع میں ہے۔
بخلاف المساجد التي علی قوارع الطریق؛ لإنہا لیست لہا أہل معروفون فأداء الجماعۃ فیہا مرۃ بعد أخری لایؤدي إلی تقلیل الجماعات۔ (بدائع الصنائع ١/١٥٣ کراچی) واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں