سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
جناب مفتی صاحب ایک شخص جمعہ کی نماز ادا کرنے مسجد میں گیا اور دیکھا کہ نماز کھڑی ہو گئی ہے تو اس نے جہاں لوگ جوتے نکالتے ہیں وہاں نماز ادا کی اور اس کو شک ہوا کے میری نماز ادا ہوئی یا نہیں تو اس نے دوبارہ ظہر کی نماز ادا کی اور نماز ادا کرنے کے بعد وہ شخص مسجد سےباہر گیا اور آگے دیکھا کے یہاں جمعہ کی نماز ہورہی ہے تو اس نے واپس مسجد میں جاکر جمعہ کی نماز نفل کے نییت سے کی تو اس کی نماز ادا ہوی یا نہیں اس کا جواب دیں۔
سائل: عبداللطیف مہوا
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
نماز کے شرائط میں سے ایک شرط طہارت مکان ہے یعنی جس جگہ وہ نماز ادا کرتاہے وہ جگہ پاک ہونی چاہئے، اور اس کے طاہر ہونے سے مراد موضع سجود و قدم کا پاک ہونا ہے
لہذا نماز کے صحیح ہونے کے لئے قیام اور سجود کی جگہیں، یعنی صرف دونوں قدموں، دونوں ہاتھوں، دونوں گھٹنوں اور پیشانی کی جگہ کا پاک ہونا شرط ہے، زمین یا مصلی وغیرہ جس چیز پر نماز پڑھی جائے، اس کے سارے حصہ کا پاک ہونا نماز کی صحت کے لئے شرط نہیں ہے،
حاشیۃ الطحطاوی میں ہے
يشترط طهارة موضع القدمين ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ و منها طهارة موضع اليدين والركبتين على الصحيح لافتراض السجود على سبعة أعظم ۔۔۔۔۔۔ و منها طهارة موضع الجبهة على الأصح۔ (١/٢٠٩ ط: دار الکتب العلمیه)
اسی طرح کسی بھی چیز کو شک کی بنیاد پر ناپاک قرار نہیں دے سکتے اگر ناپاکی کا یقین ہو تو ہی وہاں حکم صادر ہوگا خالص شک کا اعتبار نہیں ہے، اس لیے کہ جو چیز ابتداء میں ثابت بالیقین ہو اس کا حکم شک سے نہیں بدلتا۔
اس میں قاعدہ یہ ہے
أَلأَصْلُ أَنَّ مَا ثَبَتَ بِالْیَقِیْنِ لا یَزُوْلُ بِالشَّکِّ الأصول (والقواعد للفقہ الإسلامي ص/۹۲)۔ (الأشباہ والنظائر لإبن نجیم الحنفي ۱/۲۲۰ )
ترجمہ:اصل یہ ہے کہ شیٔ ثابت بالیقین، شک سے زائل نہیں ہوتی ہے۔
صورت مسئولہ میں اگر اس کو وہاں پر نجاست کا یقین ہو اور اس نے وہاں پر نجاست ہی پر نماز اداکی ہے تو اس کی پہلی نماز ادا نہیں ہوگی لیکن صرف شک کی بنیاد پر اس نے دوبارہ نماز ادا کی ہے تو اس کی پہلی نماز ادا ہوگئی اب دوسری مرتبہ پڑھی ہوئی نماز نفل شمار ہوگی۔
اس لئے کہ جن نمازوں کے بعد سنن ونوافل ہیں، ان میں نفل کی نیت سے شرکت جائز ہے، البتہ مغرب میں اس لئے جائز نہیں ہے کہ تین رکعت کی نفل نہیں ہوتی ہے ۔اور جمعہ کے بعد بھی سنن ونوافل ہوتے ہیں ؟ اس لئے جس نے جمعہ پڑھ لیا ہے ، اس کا نفل کی نیت سے دوسری مسجد میں جمعہ کی جماعت میں شرکت کرنا جائز ہے۔
الحطحاوي على مراقي الفلاح میں ہے۔
ثـم بـعـد الإتمام اقتدى متنفلاً إن شاء، وهو أفضل لعدم الكراهة، إلا فـي الـعـصـر والـفـجـر لـلنهي عن التنفل بعدهما، وفي المغرب للمخالفة۔ (حاشية الحطحاوي على المراقي، كتاب الصلاة، باب إدراك الفريضة، دار الكتاب ديوبند، جديد ٤٥٠، قديم ، ص، ٢٤٥ )
اس نے دوسری جگہ جمعہ پائی تو اگر اس کی پہلی جمعہ درست ہے تو دوسری جمعہ نفل شمار ہوگی اور اگر پہلی جمعہ درست نہیں ہوئی تو یہ دوسری جمعہ اس کی فرض کی قبیل سے ہوگی اور ماقبل ظہر اپنی فرضیت سے باطل ہوکر نفل ہوجائے گی۔
طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے۔
فإن سعى أي مشى إليها أي الجمعة و كان الإمام فيها وقت انفصاله عن داره لم يتمها أو أقيمت بعد ماسعى إليها بطل ظهره أي وصفه وصار نفلاً۔ (طحطاوی علی مراقی الفلاح ٥٢١)۔ اسی طرح (البحر الرائق میں بھی ہے دیکھئے ٢/٢٦٧) واللہ اعلم بالصواب
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں