سوال
السلام عليكم ورحمۃاللہ و بركاته
مفتی صاحب ایک مسئلہ ہے کہ ایک غیر مسلم آدمی کھانے پینے کا سامان سستا لاتا ہے اب پتا نہیں وہ کہا سے لاتا ہے لیکن وہ سستا دیتا ہے مثال کے طور پر تیل کی کیٹلی بازار میں ۲۳۰۰ میں ملتی ہے اور وہ آدمی اپنے کو ۲۰۰۰ہزار میں دیتا ہے تو وہ لینا جائز ہے یا نہیں
سائل مولانا شعيب اسلامپوری
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
مسلمان کسی کافر یا فاسق کے ساتھ خرید و فرخت کا معاملہ کریں تو یہ جائز ہے، غیر مسلم سے جائز اشیاء کی خرید و فروخت، جائز طریقے پر کی جاسکتی ہے۔
البدائع الصنائع میں ہے۔
وکذا إسلام البائع لیس بشرط لانعقاد البیع ولا لنفاذہ ولا لصحتہ بالإجماع، فیجوز بیع الکافر وشراؤہ ۔۔۔۔۔۔ إلی قولہ ولنا عمومات البیع من غیر فصل بین بیع العبد المسلم من المسلم وبین بیعہ من الکافر فہو علی العموم۔ (بدائع الصنائع، کتاب البیوع، باب شروط انعقاد البیع، ط: کراچی ۵/ ۱۳۵)
فقہ البیوع الفقہ البیوع میں ہے۔
وکذلک لا یشترط لصحۃ البیع اسلام المتعاقدین، فیصح البیع والشراء من غیر مسلم، سواء أکان ذمیا أم حربیا أو مستأمنا، ولکن منع بعض الفقہاء من مبایعتہ لبعض العوارض لا لکونہ غیر أہل للتعاقد۔ (فقہ البیوع، أحکام بیع غیر المسلمین۔ ١/ ۱٤٤)
اسی طرح بائع اور مشتری میں سے ہر ایک کو شریعت نے مکمل اختیار دیا ہےکہ آپسی رضامندی سے ثمن اور مبیع میں کمی زیادتی کریں اب وہ کیوں کرہے ہے وہ ایک دوسرے کو جاننا ضروری نہیں ہے وہ اس کا اپنا مال ہے۔
ہدایہ میں ہے۔
قال ویجوز للمشتر أن یزید للبائع فی الثمن ویجوز للبائع أن یزید للمشتر فی المبیع ویجوز أن یحط من الثمن۔ (ہدایہ ط: رحمانیہ ٣/٨٠)
صورت مسئولہ میں کہ غیر مسلم آدمی کھانے پینے کا سامان بیچنے کے لئے سستا لاتا ہے اور وہ سستا دیتا ہے، تو جب تک ہمیں یقینی طور پر غیر شرعی ہونے کا علم نہ ہوجائے لینا جائز ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں