سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
بڑے ہی ادب کے ساتھ تمام ہی مفتیان کرام کی خدمت میں ایک سوال عرض ہے کہ ہمارے علاقے میں شیواجی مہاراج کی جینتی ہوتی ہے تو لوگ کھانا بناتے ہیں اس موقع پر تمام ہی لوگ جمع ہوتے ہیں وہ لوگ کھانا کھاتے ہیں تو اس میں مسلمانوں کو بھی کھانے کی دعوت دیتے ہے ہمارا مدرسہ اسی علاقے میں ہے تو مدرسے کے طلبہ کو بھی کھانے کی دعوت دیتے ہیں دعوت میں شریک نہ ہوں تو کھانا مدرسہ میں پہنچا دیتے ہیں تو میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ کھانا اس علاقے کے مسلمان اور ان طلبہ کے لیے کھانے کی گنجائش ہے کھا سکتے ہیں یا نہیں جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائے جزاک اللہ۔
سائل: محمد اسلم میزابی ایولے واری پونہ
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
غیر مسلموں کی دعوت میں شرکت کرنا اور ان کی دعوت کا کھانا کھانے کی شریعت نے اجازت دی ہے تاکہ وہ مسلمانوں کے اخلاق و کردار سے متأثر ہوکر اسلام کی طرف مائل ہو جائے، لیکن اس کے لئے کچھ شرائط ہے۔
(١) دعوت کسی مذہبی تہوار اور مذہبی تقریبات کی مناسبت سے نہ ہو۔
(٢) دیوی، دیوتاوں کے نام کا چڑھاوا نہ ہو۔
(٣) کھانا پوجا پاٹ والا نہ ہے۔
(٤) اس دعوت میں غیروں کی کسی مذہبی چیز کی تعظیم وتکریم یا اس کی تعریف وغیرہ لازم نہ آتی ہو۔
(٥) دعوت میں حرام اشیاء مثلا شراب، خنزیر یا ان کے ہاتھ کا ذبیحہ وغیرہ نہ ہوں۔
(٦) اسی طرح سخت مجبوری کی صورت ہو کہ عدم قبول کی صورت میں ان کی جانب سے ضرر کا اندیشہ ہے، یا مسلمانوں اور مدرسے کے سلسلہ میں منافرت پھیلانے کا اندیشہ ہو تو ایسی مجبوری میں دفع ضرر کے خاطر دعوت قبول کرنے کی گنجائش ہے۔
مسؤلہ صورت میں شیواجی مہاراج کی جینتی پروگرام میں جس میں باقاعدہ پوجا پاٹ وغیرہ نہ ہوتی ہو اور جو لوگ کھانا بناتے ہیں وہ کھانا پوجا پاٹ والا نہیں ہے اور حرام ونجس چیز کی آمیزش بھی نہیں ہے تو مسلمانوں اور مدرسے کے طلبہ کے لئے بھی کھانے کی دعوت قبول کرنا جائز ہے اور کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں، البتہ اگر کسی قسم کی مجبوری نہ ہو تو قبول نہ کرنا بہتر ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
فتاوی عالمگیری میں اسی کی طرف اشارہ کیا گیاہے۔
لا بأس بطعام المجوس كله إلا الذبيحة، فإن ذبيحتهم حرام ولم یذکر محمد رحمہ اللہ تعالی الأکل مع المجوسی ومع غیرہ من أهل الشرک أنہ هل یحل أم لا وحکی عن الحاکم الإمام عبد الرحمن الکاتب أنہ إن ابتلی بہ المسلم مرۃ أو مرتین فلا بأس بہ وأما الدوام علیہ فیکرہ کذا فی المحیط
وَذَكرَ الْقَاضي الْإمَامُ رُكن الْإسْلَام عَلِي السغْدِي أَن الْمَجُوسِي إذَا كَانَ لَا يُزَمْزِمُ فَلَا بَأْسَ بِالْأَكل مَعَه وَإِنْ كَانَ يزمْزم فَلَا يأْكل مَعَهُ؛ لِأَنهُ يُظهر الْكفر وَالشرْك، وَلَا يَأْكل مَعَهُ حَالَ مَا يظْهِر الْكفرَ وَالشرْكَ، وَلَا بَأْسَ بِضِيَافة الذمي وَإِنْ لَمْ يَكُنْ بيْنَهمَا إلا مَعْرِفَة، كَذَا فِي المُلتقطِ. وَفِي التفارِيق: لَا بَأس بِأَنْ يضِيف كَافِرًا لقرَابة أَوْ لِحَاجة، كَذَا فِي التمُرْتَاشي
وَلَا بَأْسَ بِالذهَابِ إلَى ضِيَافَة أَهْل الذمةِ، هَكَذَا ذَكَرَ مُحَمد - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى (الْبَابُ الرابِعَ عَشر فِي أَهْلِ الذمةِ وَالْأحْكامِ التي تَعود إليْهِمْ، ٢٤٨ ٥/٢٤٧ زکریا، ٥ / ٤٢٦ ط: دار الکتب العلمیہ)
اسی طرح فتاوی بزازیہ کی عبارت سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے۔
اجتمع المجوس یوم النیروز فقال مسلم: خوب سیرت نہاوند یکفر۔۔۔ وما یھدی المجوس یوم النیروز من أطعمتھم إلی الأشراف ومن کان لھم معرفة لا یحل أخذ ذلک علی وجہ الموافقة معھم وإن أخذہ لا علی ذلک الوجہ لا بأس بہ والاحتراز عنہ أسلم(الفتاوی البزازیة علی ھامش الھندیة، ٤/۳۳۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔ وللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں