جمعرات، 17 فروری، 2022

رجب کے نذر و نیاز کا شرعی حکم سوال نمبر ١٥٣

سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

جناب مفتی صاحب رجب کی نیاز کا کھانا کیسا ہے اور کچھ لوگ نیاز ہونے کے بعد کہتے ہیں چلو نیاز تیار ہو گئی ہے چلو چکھنے، تو جا سکتے ہیں یا نہیں؟

سائل: ملک عبداللطیف


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


اسلام سے قبل ہی سے ماہِ رجب میں بہت سی رسومات اور منکرات رائج تھیں، جن کو اسلام نے یکسر ختم کرکے رکھدیا، ان میں رجب کے مہینے میں قربانی کا اہتمام، جس کو حدیث پاک کی اصطلاح میں عتیرہ کے نام سے واضح کیا گیا ہے، اسی مہینے میں زکاة کی ادائیگی اور پھر موجودہ زمانے میں ان کے علاوہ بی بی فاطمہ کی کہانی ،۲۲/ رجب کے کونڈوں کی رسم،۲۷/ رجب کی شب جشن شب معراج اور اگلے دن کا روزہ جس کو ہزاری روزہ کہا جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ سب ایسی رسومات و بدعات ہین جن کا اسلام میں کوئی ثبوت نہیں ہے، 


رجب کی ستائیسویں شب میں موجودہ زمانے میں طرح طرح کی خرافات پائی جاتی ہیں، اس رات حلوہ پکانا، دعوتیں کرنا وغیره وغیره، جن کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر اِن کو عبادت اور ثواب سمجھ کے کیا جاتا ہے تو یہ بدعت کہلائیں گی، کیونکہ نہ تو اِن سب اُمور کو ہمارے نبی کریم ﷺ نے بنفسِ نفیس کیا، نہ ان کے کرنے کا حکم کیا اور نہ ہی آپ ﷺ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کیا ، اور نہ ہی کرنے کا حکم کیا۔ اور اگر ان اُمور کو عبادت سمجھ کے نہیں کیا جاتا بلکہ بطورِ رسم کیا جاتا ہے تو ان میں فضول خرچی اور اسراف، اس سے احتراز ضروری ہے۔


نیاز کا ایک معنی عرف میں یہ بھی ہے کہ لوگ بزرگوں کے ایصالِ ثواب کے لیے یا اپنے فوت شدہ اقارب کے لیے کھانا وغیرہ بنواکراس پر فاتحہ وغیرہ پڑھ کر اسے  تقسیم کرتے ہیں تو اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر یہ نیاز  ان ہی بزرگوں کے نام کی ہو، یعنی اس  سے ان بزرگوں کا تقرب مقصود ہو تو  یہ حرام ہے، اس کا کھانا بھی حرام ہے؛  کیوں کہ یہ نذر لغیر اللہ ہے۔

اور اگر یہ نیاز اللہ کی رضا کے لیے ہو، صرف  اس کا ثواب بزرگوں یا فوت شدگان کو پہنچایا جائے، تو یہ خیال رہے کہ اس کے لئے کوئی تاریخ ہمیشہ کے لیے مقرر نہ کی جائے، کسی دن کی تخصیص نہ کی جائے، اس کو لازم اور واجب نہ سمجھا جائے، اور اس میں کوئی خلافِ شرع کام نہ ہو، جن دنوں میں اہلِ بدعت وغیرہ کا شعار ہو ان دنوں میں نہ کیاجائے ان شرائط کے ساتھ نیاز کا کھانا جائز ہے، لیکن موجودہ زمانہ میں اس کے جو طریقے رائج ہیں، ان میں مذکورہ شرائط کی رعایت نہیں کی جاتی، اور اس میں دیگر  بھی کئی مفاسد شامل ہوگئے ہیں، لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔(مستفاد: آپ کے مسائل اور ان کا حل، امداد المفتیین)


مطلب في النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام من شمع أو زيت أو نحوه (قوله تقربا إليهم) كأن يقول يا سيدي فلان إن رد غائبي أو عوفي مريضي أو قضيت حاجتي فلك من الذهب أو الفضة أو من الطعام أو الشمع أو الزيت كذا بحر (قوله باطل وحرام) لوجوه: منها أنه نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا يجوز لأنه عبادة والعبادة لا تكون لمخلوق. ومنها أن المنذور له ميت والميت لا يملك.

ومنه أنه إن ظن أن الميت يتصرف في الأمور دون الله تعالى واعتقاده ذلك كفر، اللهم إلا إن قال يا الله إني نذرت لك إن شفيت مريضي أو رددت غائبي أو قضيت حاجتي أن أطعم الفقراء الذين بباب السيدة نفيسة أو الإمام الشافعي أو الإمام الليث أو اشترى حصرا لمساجدهم أو زيتا لوقودها أو دراهم لمن يقوم بشعائرها إلى غير ذلك مما يكون فيه نفع للفقراء والنذر لله عز وجل وذكر الشيخ إنما هو محل لصرف النذر لمستحقيه القاطنين برباطه أو مسجده فيجوز بهذا الاعتبار۔ (ج: ٣/٤٢٧ ط: دار عالم الکتب)


صورت مسئولہ میں رجب میں نذر و نیاز اہلِ بدعت وغیرہ کا خاص شعار ہے، لہذا اگر نذر و نیاز کی دعوت دلانے سے مراد وہ ہے جو اہل بدعت کے یہاں رائج ہے تو وہ کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہے، اوراس کو لازم سمجھنا ناجائز ہے۔ البتہ اگر صرف رسمی طور پر کھانے کی دعوت ہو تو ایسا کھانا ناجائز تو نہیں ہے لیکن رسم ہونے کی وجہ سے نہیں کھانا چاہئے۔ فقط واللہ اعلم

 

واللہ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی


کوئی تبصرے نہیں: